Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّبِعُوْنَ : پیروی کرتے ہیں الرَّسُوْلَ : رسول النَّبِيَّ : نبی الْاُمِّيَّ : امی الَّذِيْ : وہ جو۔ جس يَجِدُوْنَهٗ : اسے پاتے ہیں مَكْتُوْبًا : لکھا ہوا عِنْدَهُمْ : اپنے پاس فِي : میں التَّوْرٰىةِ : توریت وَالْاِنْجِيْلِ : اور انجیل يَاْمُرُهُمْ : وہ حکم دیتا ہے بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی وَيَنْهٰىهُمْ : اور روکتا ہے انہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَيُحِلُّ : اور حلال کرتا ہے لَهُمُ : ان کے لیے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَيُحَرِّمُ : اور حرام کرتا ہے عَلَيْهِمُ : ان پر الْخَبٰٓئِثَ : ناپاک چیزیں وَيَضَعُ : اور اتارتا ہے عَنْهُمْ : ان کے بوجھ اِصْرَهُمْ : ان کے بوجھ وَالْاَغْلٰلَ : اور طوق الَّتِيْ : جو كَانَتْ : تھے عَلَيْهِمْ : ان پر فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ اٰمَنُوْا بِهٖ : ایمان لائے اس پر وَعَزَّرُوْهُ : اور اس کی رفاقت (حمایت کی) وَنَصَرُوْهُ : اور اس کی مدد کی وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی النُّوْرَ : نور الَّذِيْٓ : جو اُنْزِلَ : اتارا گیا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
جو { اَلرُّسُوْل } (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی کریں گے کہ وہ نبی امی ہے اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں توراۃ و انجیل میں لکھی پائیں گے وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا ، برائی سے روکے گا ، پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا ، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا ، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کے مخالفوں کے لیے روک ہوئے (اور راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں
نبی اعظم و آخر ﷺ کا امی ہونے کا مطلب کیا ؟ 171: قرآن کریم میں نبی اعظم و آخر ﷺ کا بکثرت ذکر آیا ہے کہیں آپ کے منصب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ کہیں آپ کے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا ذکر فرمایا۔ کہیں آپ ﷺ کی عبادات کا تذکرہ کیا ۔ کہیں آپ ﷺ کو رحمت للعالمین قرار دیا ۔ کہیں گھریلو معاملات کی طرف اشارات کئے ۔ کہیں آپ ﷺ کے جنگی معرکوں کی تفصیلات بیان کیں ۔ کہیں آپ ﷺ کے القابات کا ذکر فرمایا اس طرح آپ ﷺ کو (النبی الامی ) کے لقب سے نوازا گیا جیسا کہ زیر نظر آیت میں فرمایا ۔ رہی یہ بات کہ آپ ﷺ کو امی کیوں کہا گیا ؟ تو اس کے چار جواب ممکن ہیں اور چاروں ہی آپ ﷺ کے حق میں درست ہیں ۔ 1 ۔ امی ۔ ماں والا اس لئے کہ آپ بےباپ پیدا ہوئے تھے ۔ 2 ۔ امی ۔ ام القرٰی کی طرف نسبت کرکے کہ آپ ﷺ فی الواقع ام القٰری یعنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے۔ 3 ۔ امی ۔ امیین میں پیدا ہونے کا باعث کہ آپ ﷺ کی قوم کا لقب ہی ان پڑھ قوم تھا ۔ 4 ۔ امی ۔ ناخواندہ ہونے کے باعث کہ آپ نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا ۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ان چار جوابوں میں سے پہلے جواب بہت کم ذکر کیا گیا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دوسرے جواب کا تذکرہ بھی کم ہی لوگوں نے کیا ہے لیکن پہلے سے زیادہ تیسرے جواب کو چونکہ قرآن کریم میں بھی وضاحت سے بیان کیا ہے جیسے فرمایا ــ: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ (الجمعہ 62 : 2 ) وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا۔ اس لئے قوم میں سے ایک رسول ہونے کے باعث آپ ﷺ کو امی کہا گیا ۔ لہٰذا یہ وجہ بھی آپ کو امی کہنے کی کچھ لوگوں نے ذکر کی ہے لیکن چوتھا جواب کہ آپ چونکہ ناخواندہ تھے اس لئے آپ ﷺ کو امی کہا گیا اس پر لوگوں نے اتنا لکھا ہے کہ اگر اس کو جمع کیا جائے تو ایک بہت بڑی ضخیم کتاب بن سکتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ہمارے نزدیک پہلے تین جواب بیک وقت صحیح اور درست ہیں اگرچہ اولیت پہلے ہی جواب کو حاصل ہے ۔ لیکن چوتھا جواب جس پر بہت کچھ لکھا گیا اس میں کچھ کلام ہے ۔ وہ کلام کیا ہے ؟ کلام یہ کہ بلا شبہ یہ بات تو صحیح ہے کہ آپ ﷺ نے کسی انسان سے لکھنا اور پڑھنا نہیں سیکھا نہ بچپنے میں ، نہ بلوغت کے بعد جوانی تک نبوت ملنے سے پہلے اور نہ ہی نبوت ملنے کے بعد ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت کے ساتھ ہی آپ ﷺ کو پڑھنا اور لکھنا سکھا دیا تھا اس لئے آپ ﷺ ضرورت کے مطابق پڑھتے بھی تھے اور لکھتے بھی ۔ چناچہ قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : وَ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ 0048 ( العنکبوت 29 : 48) اے پیغمبر اسلام ! آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے اس لئے ہمارے وہ بزرگ جو نبوت ملنے کے بعد بھی آپ کے کچھ نہ پڑھ سکنے اور کچھ نہ لکھ سکنے کے قائل ہیں ہم ان کے ساتھ متفق نہیں ۔ محولہ بالا آیت سے بھی یہی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی انسان سے نہ پڑھنا سیکھا تھا اور نہ لکھنا اس لئے نبوت سے پہلے من قبلہ آپ نہ لکھ سکتے تھے اور نہ پڑھ سکتے تھے ۔ آپ ﷺ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روز پیدائش سے سن کہولت کو پہنچنے تک آپ ﷺ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی اور نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا ۔ اس امر واقعہ کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات سے انبیاء سابقین کے حالات ، مذاہب و ادیان کے عقائد ، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس امی کی زبان سے ہو رہا ہے یہ اس کو وحی الٰہی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لئے شک کرنے کی کچھ بنیاد بھی ہو سکتی تھی کہ یہ علم وحی الٰہی نہیں بلکہ اخد واکتساب سے حاصل کیا گیا ہے لیکن اس کی امیت نے تو ایسے کسی شک کیلئے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ لیکن جب پیغام نبوت ملا تو اس کی پہلی شرط ہی یہ تھی اقرا پڑھ اور آپ ﷺ نے فرمایا ما ان بقاری میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ ناموس نبوت نے تین بار یہ حکم دوہرایا اور اس کے ساتھ ہی ہر تین بار آپ کو بھینچا جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ کی زبان مبارک پر پیغام رسالت جاری ہوگیا اور آپ ﷺ نے پڑھنا شروع کردیا اور اس طرح سورة العلق کی پہلی پانچ آیتوں کو آپ ﷺ نے پڑھ لیا اور پھر یہ پڑھنا اس طرح جاری ہوا کہ صرف پڑھنا ہی پڑھنا نہ رہا بلکہ اس امی قوم کو پڑھانا شروع کردیا اور قرآن کریم نے اس کو اس طرح بیان فرمایا : یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ 1ۗ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ002 (الجمعۃ 62 : 2) جو انہیں اسکی آیات سناتا ہے ، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ یہ اللہ کی قدرت و حکمت کا رشمہ ہے کہ اس نے ایک ناخواندہ کو پل بھر میں خواندہ بنا دیا اور یہی وہ اندہ وجاوید معجزہ ہے جس کا دوسرا نام نبوت و رسالت رکھا گیا ۔ گویا نبوت و رسالت کیا ہے ؟ وہ ایک معجزہ ہی تو ہے پھر اس نبی امی کے اس معجزہ کا نتیجہ کیا ہوا ؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی تعلیم و ہدایت اس درجہ انقلاب انگیز ہے اور پھر ایسے عالمگیر ابدی اصولوں کحا مل ہے جن پر تمام نوع انسانی مل کر ایک امت بن سکتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہے کوئی دوسرا انسان جو نبی نہ ہوتا خواہ کتنی ہی کوشش کرلیتا یہ مقام و مرتبہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا تھا ۔ عرب جیسی پسماندہ قوم تو درکنار دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کا کوئی ذہین آدمی بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا تھا کہ اب ایک قوم کی اس طرح مکمل طور پر کایا پلٹ دے اور پھر ایسے جامع اصول دنیا کو دے دے جن پر ساری نوع انسانی ایک امت بن کر ایک دین اور ایک تہذیب کا عالمگیر وہمہ گیر نظام ابد تک چلانے کے قابل ہوجائے۔ محولہ بالا آیت کو اس قرآن کریم میں چار بار دہرایا گیا جیسا کہ سورة البقرہ 2: 129 ، سورة البقرہ 2: 151 ، آل عمران 3:164 اور سورة الحج 62: 2 آیت میں اور اس طرح لوگوں کو بتایا کہ ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحا ایک رسول کا کام ہے ۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جس کی زبان ، مضامین ، انداز بیان ہرچیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں ۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو طرح طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں اور یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام نبی و رسول کرتے رہے ہیں پھر یہ کس ہٹ دھرمی کی بات ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے اعلانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لئے انکار کردیا کہ اللہ نے تمہاری قوم کی بجائے اس قوم میں سے اٹھایا جسے امی کہتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ یہود و نصاریٰ نے عربوں کو امیون کہا جس کی وجہ ان میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی تھی اور پھر وہ اس نام سے معروف ہوگئے اور قوم میں محمد رسول اللہ ﷺ بےباپ پیدا ہوئے اور پھر آپ ﷺ نے کسی سے پڑھنا اور لکھنا بھی نہ سیکھا ۔ اس لئے وہ تینوں باتیں آپ ﷺ میں اکھٹی ہوگئیں جس کے باعث آپ ﷺ امی ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ ﷺ کو اس لقب سے اس آیت میں یاد کیا اور یہی وہ لقب تھا جو پہلے انبیاء کرام بھی اس آخری نبی اور رسول کا بتاتے رہے تھے چونکہ آپ ﷺ نے کسی سے پڑھنا اور لکھنا بھی نہ سیکھا تھا اس لئے نبوت عطا ہونے تک آپ کچھ پڑھ نہیں سکتے تھے لیکن نبوت ملنے پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا کچھ پڑھا اور سکھا دیا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاء کرام کو بھی نہیں سکھایا اور پڑھایا تھا ۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ العزیز سورة اقراء میں آئے گی۔ آپ ﷺ کے ظہور کی خبر تورات اور انجیل میں موجود تھی اور ہے : 172: تورات و انجیل میں تحریف ہونے کے باوجود نبی اعظم و آخر ﷺ کے ظہور کی اطلاع آج بھی موجود ہے اگرچہ ان کا ذکر پیچھے بھی ایک سے زیادہ مقامات پر گزر چکا ہے لیکن یاد دہانی کے لئے کچھ حوالہ جات یہاں بھی ذکر کر دئے جاتے ہیں ۔ چناچہ مذکور ہے کہ : 1 ۔ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا ۔ تم اس کی سننا ۔۔۔۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کیلئے ان ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا ۔ (استثناء 18: 15 تا 11) 2 ۔ اور اس نے کہا : خدا وند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا ۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لئے آتشی شریعت تھی۔ وہ بیشک قوموں سے محبت رکھتا ہے ۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لئے آتشی شریعت تھی۔ (استثناء 33:2 ) 3 ۔ دیکھو میرا خادم جسے میں سنبھالتا ہوں ۔ میرا بر گزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے ۔ میں نے اپنی روح اس پر ڈالی وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا ۔۔۔۔۔۔ وہ راستی سے عدالت کریگا ۔ وہ ماند نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا۔ ( یسعیاہ 42:1 ، 4) 4 ۔ یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا ۔ وہی کونے کے سارے کا پتھر ہوگیا ۔ یہ خدا وند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے ؟ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔ ـ ( متی 21 :42 ، 44) 5 ۔ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ۔ (یوحنا 14:17) 6 ۔ اس کے بعد میں تم سے باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔ (یوحنا 14:31) 7 ۔ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں گا تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جائوں تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا ۔ (یوحنا 16:7) 8 ۔ لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپیں طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ۔ (یوحنا 16:13) یہ حوالہ جات تبرکاََ درج کر دئیے ہیں ۔ اس طرح کے بہت سے بیانات تورات و انجیل میں موجود ہیں اور ان کی تشریح بھی ان کے اپنے علمائے کی ہے جس سے مزید وضاحت ہوجاتی ہے ۔ انشاء اللہ کسی مناسب مقام پر مزید عرض کیا جائے گا کہ اس طرح کے بیانات سے نبی امی یعنی اعظم و آخر ﷺ ہی مراد لئے گئے ہیں اور نبی امی کے سوا اور کوئی ان کا مصداق نہیں ہو سکتا اور یہ بات خود علماء یہود و نصاریٰ نے بیان کی ہے ۔ نبی اعظم و آخر ﷺ انہیں نیکی کا حکم دے گا : 173: قرآن کریم کے اوراق اچھے کاموں کے کرنے کے احکام سے بھرے ہوئے ہیں ان کو شمار کرنا چاہیں تو اس کیلئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں ۔ اس جگہ چند احکامات کا تبرکاََ ذکر کیا جاتا ہے : 1 ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تمہارے سجدوں کے قابل صرف اسی کی ذات ہے۔ 2 ۔ اپنی حاجات و مشکلات میں صرف اس کو پکارنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ لوگو ! تمارے دکھ درد دور کرنے والا اور تمہیں تمہاری مشکلات سے نکالنے والا صرف وہی اللہ ہے اس لئے تم جو کچھ طلب کرو صرف اسی سے کرو۔ 3 ۔ آپ ﷺ نے اللہ اور اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں اور یوم آخرت پر کامل یقین رکھنے کا حکم دیا ۔ 4 ۔ آپ ﷺ نے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اور اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنے کی تلقین فرمائی اور یہ بتایا کہ اصل نیکی وہ ہے جو برائی کے بدلہ میں کی جائے ۔ یعنی برائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی کی جائے تو یہ نیکی ہے ۔ 5 ۔ آپ ﷺ نے معاشرہ کے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں اور بیوائوں پر اپنے مال خرچ کرنے کا حکم اور ان کی اچھی دیکھ بھال کا حکم دیا ۔ 6 ۔ آپ ﷺ نے سچ بولنے ، ناپ تول کو پورا کرنے ، لینے اور دینے کے باٹ اور پیمانے ایک رکھنے کا حکم دیا ۔ 7 ۔ آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور اولاد کو صحیح اسلامی زندگی کی راہ پر چلانے کا حکم دیا ۔ 8 ۔ آپ ﷺ نے ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا غیر ہوں وہ اپنے مذہب مسلک سے تعلق رکھنے والے ہوں یا مذہب و مسلک کے خلاف ہوں۔ 9 ۔ آپ ﷺ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ انسانوں کے حقوق کا خاص خیال رکھو اس لئے کہ ان حقوق کی کوتاہیوں کو اللہ بھی معاف نہیں فرمائے گا ۔ 10 ۔ آپ ﷺ نے ان جانوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کا حکم دیا جن کو انسان اپنی ضرورت کے لئے اپنی ذمہ داری میں لے لیتا ہے خواہ وہ جانور حلال ہوں یا حرام۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے انہیں برائی سے منع فرمایا : 174: قرآن کریم اور احادیث نبوی میں ہر اس کام سے آپ ﷺ نے منع فرمایا جو برائی کا کام ہو ۔ اگر ان کو شمار کرنا چاہیں تو اس کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں اس جگہ چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے ـ: 1 ۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ، حاجت روا اور مشکل کشا بنانے سے منع فرمایا ۔ ( الذاریات : 51) 2 ۔ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنے کی ممانعت فرمائی۔ ( یونس 10 : 106) 3 ۔ برائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے منع فرمایا ۔ (المائدہ 5 : 3) 4 ۔ حق کو چھپانے اور حق و باطل کو ملانے سے منع فرمایا ۔ (البقرہ 25: 44) 5 ۔ گروہ بندیوں میں تقسیم ہونے سے منع فرمایا گیا اور شرک کی قسم قرار دیا گیا ۔ (آل عمران 3: 105) 6 ۔ ہر برائی سے بچنے کی تلقین فرمائی خواہ وہ پوشیدہ ہو یا ظاہر ۔ (الانعام 6:151) 7 ۔ یتیموں کے مال کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا اور ماپ تول میں کمی کرنے سے بھی منع کیا ۔ (الانعام 6:152) 8 ۔ ظالموں کا ساتھ دینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ۔ ( ھود 11: 113) 9 ۔ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو دنیا کے مال کی خاطر بیچنے سے منع فرمایا۔ (النحل 16: 95) 10 ۔ ان لوگوں کی طرف آنکھیں بلند کرنے سے منع فرمایا جن کو اللہ نے دنیا کا مال و متاع دیا لیکن وہ اللہ کی یاد کو بھول گئے ۔ (طہ 2: 129) نبی کریم ﷺ نے پسندیدہ چیزیں حلال اور گندی چیزیں حرام کردیں : 175: نبی رحمت ﷺ نے پسندیدہ چیزوں کا استعمال جائز ٹھہرایا ہے ناپسندیدہ چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے ۔ قرآن کریم نے اس معنی میں طیبات اور خبائث کا لفط اختیار کیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزیں اچھی ہیں انہیں جائز کہا ہے اور جو بری یعنی ضر ہیں ان کو ناجائز کہا ہے یعنی ان سے روک دیا ہے ۔ اس کی تفصیل جلد اول سورة البقرہ کی آیت 173 ، 275 میں اور جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 93 میں اور جلد ہذا سارہ المائدہ کی آیت 5 اور آیت 72 میں اور سورة الانعام کی آیت 119 , 143 , 144 , 150 , 151 میں اور سورة الاعراف آیت 32 ، 33 میں گزر چکی ہے ۔ وہاں سے ملاحظہ فرمائیں ۔ نبی کریم ﷺ نے ان بوجھوں سے نجات دلائی جن کے نیچے لوگ دبے ہوئے تھے : 176: جو بوجھ اہل کتاب کے سروں پر پڑا ہوا تھا اور جن پھندوں میں وہ گرفتار ہوگئے تھے ان سے ان کو نجات دلائی۔ یہ بوجھ کیا تھا اور یہ پھندے کونسے تھے جن سے قرآن کریم نے رہائی دلائی ؟ قرآن کریم نے دوسرے مقامات میں واضح کردیا ہے ۔ مذہبی احکام کی بےجا سختیاں ، مذہبی زندگی کی ناقابل عمل پابندیاں ، ناقابل فہم عقیدوں کا بوجھ ، وہم پرستیوں کا انبار ، عالموں اور فقہیوں کی تقلید کی بیڑیاں ، پیشوائوں کی تقلید کی زنجیریں۔ یہ سب بوجھل رکاوٹیں تھیں جنہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے دل و دماغ مقید کر دئیے تھے پیغمبر اسلام ﷺ کی دعوت نے ان سب سے نجات دلائی ۔ اس نے سچائی کی ایسی سہل و آسان راہ دکھائی جس میں عقل کے لئے کوئی بوجھ نہیں اور عمل کے لئے کوئی سختی نہیں ۔ لیکن افسوس کہ جن پھندوں اور بوجھوں سے اللہ کے رسول ﷺ نے اور قرآن کریم کی تعلیمات نے لوگوں کو نجات دلائی تھی مسلمانوں نے وہی پھندے اپنے گلوں میں ڈال لئے اور وہی بوجھ دوبارہ اپنے سروں پر اٹھا لئے اور آج اس کا جتنا ماتم کیا جائے اتنا ہی کم ہے ۔ خیال رہے کہ لفظ اصر ـ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے بوجھ کے معنوں میں اور عہد کے معنوں میں اس جگہ یہ دونوں معنوں پر محیط ہے یعی اعمال شدیدہ کا بوجھ اور اخترائی شریعت کے پھندوں کا بوجھ جیسے کپڑے پر پیشاب وغیرہ کا قطرہ لگ جائے تو اتنا کپڑا کاٹ دو ۔ ایام حیض میں عورت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور اس کے ہاتھ کی چیز کھانا حرام قرار دیا ہوا تھا اور مال غنیمت کو نذر آتش کر دو اس طرح کی بیشمار پابندیاں جن کا ذکر آج بھی تورات میں کیا گیا ہے ۔ ٓآپ ﷺ ان کے سارے طوق ان کے گلے سے اتروادیں : 177: اغلال جمع ہے غل کی اور غل کے معنی زنجیر کے ہیں اور اس کو طوق سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور ان سے مراد بھی شریعت موسوی کے وہ سخت احکام ہیں جو نبی نے نہیں بلکہ نبی کے بعد شارحین نے اپنے پاس سے گھڑ لئے تھے مثلاََ یہ کہ یوم سبت کو ہر دنیاوی کام کی مخالفت تھی۔ اگر کوئی کسی کو قتل کردیتا تو دیت کی گنجائش نہ تھی بلکہ قاتل کو بطور قصاص قتل کردینا ضروری تھا ۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے آکر ساری باتوں کی اصلاح فرمائی۔ جیسے کپڑا یا بدن ناپاک ہونے کی صورت میں اس کو دھو لینا کافی قرار دیا ۔ حائضہ عورت سے صرف ازدواجی تعلق کو ممنوع فرمایا اور باقی سارے کام جائز رکھے اور قصاص کے ساتھ قتل کی دیت کو مقرر کردیا تاکہ زندگی میسر آئے ۔ وغیرہ وغیرہ فلاح انہیں لوگوں کے لئے ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی روشنی سے مستفید ہوں : 178: اس طرح گویا دنیا کے سارے انسانوں اور خصوصاََ اہل کتاب کو دعوت ایمان دے دی کہ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق سابق پیش گوئیوں کے امین ہیں اور جن کو ان کی بعثت سے یہ سعادت نصیب ہونے والی ہے کہ غیر فطری بندھنوں اور پابندیوں سے آزاد ہوجائیں گے سب سے پہلے انہی کا حق ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں ۔ اس طرح اختصار اور جامعیت کے ساتھ بتا دیا کہ فلاح وسعادت سے صرف وہی سر فراز ہوگا جو میرے آخری نبی و رسول ﷺ پر سچے دل سے ایمان لائے گا اور اس کی تعظیم و تکریم میں کوتاہی نہیں کرے گا ۔ اس کے دین کی نصرت اور اس کی شریعت کی تائید کے لئے ہر قربانی دینے پر مستعد ہوگا اور اس کے لائے ہوئے نور اور اس کی پھیلائی ہوئی روشنی میں چلنے کی کوشش کرے گا اور اس کے ارشادات پر عمل کرنے کے لئے دل و جان سے آمادہ ہوگا ۔ گویا یہ آیت اسی رحمت للعالمین ﷺ کی آسمانی تفسیر ہے جس میں لازم قرار دیا گیا ہے کہ ایمان کے بعد آپ ﷺ کی تعظیم و تکریم لازم و ضروری ہے بلکہ قرآن کریم کی نصرت و اتباع کا حق تب ہی ادا ہو سکتا ہے جب دل میں نبی اعظم و آخر ﷺ کا ادب و احترام ہو کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
Top