Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Faatir : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠ ۧ
اَلَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
يَتَّبِعُوْنَ
: پیروی کرتے ہیں
الرَّسُوْلَ
: رسول
النَّبِيَّ
: نبی
الْاُمِّيَّ
: امی
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
يَجِدُوْنَهٗ
: اسے پاتے ہیں
مَكْتُوْبًا
: لکھا ہوا
عِنْدَهُمْ
: اپنے پاس
فِي
: میں
التَّوْرٰىةِ
: توریت
وَالْاِنْجِيْلِ
: اور انجیل
يَاْمُرُهُمْ
: وہ حکم دیتا ہے
بِالْمَعْرُوْفِ
: بھلائی
وَيَنْهٰىهُمْ
: اور روکتا ہے انہیں
عَنِ
: سے
الْمُنْكَرِ
: برائی
وَيُحِلُّ
: اور حلال کرتا ہے
لَهُمُ
: ان کے لیے
الطَّيِّبٰتِ
: پاکیزہ چیزیں
وَيُحَرِّمُ
: اور حرام کرتا ہے
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْخَبٰٓئِثَ
: ناپاک چیزیں
وَيَضَعُ
: اور اتارتا ہے
عَنْهُمْ
: ان کے بوجھ
اِصْرَهُمْ
: ان کے بوجھ
وَالْاَغْلٰلَ
: اور طوق
الَّتِيْ
: جو
كَانَتْ
: تھے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فَالَّذِيْنَ
: پس جو لوگ
اٰمَنُوْا بِهٖ
: ایمان لائے اس پر
وَعَزَّرُوْهُ
: اور اس کی رفاقت (حمایت کی)
وَنَصَرُوْهُ
: اور اس کی مدد کی
وَاتَّبَعُوا
: اور پیروی کی
النُّوْرَ
: نور
الَّذِيْٓ
: جو
اُنْزِلَ
: اتارا گیا
مَعَهٗٓ
: اس کے ساتھ
اُولٰٓئِكَ
: وہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: فلاح پانے والے
وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس رسول کا جو نبی امی ہے ، وہ جس کو پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس تورات اور انجیل میں اور وہ حکم دیتا ہے ان کو معروف کا اور منع کرتا ہے ان کو منکر سے اور وہ حلال قرار دیتا ہے ان کے لئے پاک چیزوں کو اور حرام قرار دیتا ہے ان پر ناپاک چیزوں کو اور اتارتا ہے ان سے ان کے بوجھ اور طوق جو ان پر پڑے ہوئے ہیں پس جو لوگ ایمان لائے اس نبی پر اور اس کی تائید کی او اس کی مدد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے ، یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے
ربط آیات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی امت کے حق میں دعا کی تھی ” واکتب لنا فی ھذا الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ انا ھدنا الیک “ اے مولا کریم ! لکھ دے ہمارے لیے اس دنیا کی زندگی میں بھی بھلائی اور آخرت کی زندگی میں بھی ! بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” عذابی اصیب بہ من اشائ “ یہ میرا عذاب ہے جسے میں چاہوں پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے فرمایا میں وہ خاص رحمت ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ہماری باتوں پر ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی امت کے حق میں موسیٰ (علیہ السلام) کی برتری کی دعا قبول نہ فرمائی بلکہ اس چیز کو ان لوگوں کے لیے خاص کردیا جن میں مذکورہ تین صفات پائی جائیں گی۔ اتباع بنی امی اب اللہ تعالیٰ نے رحمت خاصہ کے مستحقین کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی ہے الذین یتبعون الرسول وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی النبی الامی جو کہ نبی امی ہے فرمایا میں اپنی رحمت خاصہ ایسے ہی لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جس کی وجہ سے انہیں اس دنیا میں بھی باقی امتوں پر فوقیت حاصل ہوگی اور آخرت میں بھی برتری حاصل ہوگی الذی اور نبی امی وہ ذات ہے یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورۃ والا انجیل جسے وہ لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے پاس تورات اور انجیل میں گویا اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان کے اتباع کو رحمت خاصہ کے حصول کے لیے چوتھی صفت کے طور پر بیان فرمایا اب یہ نبی امی کون ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی چھ صفات بیان کی ہیں ان میں سے دو اس درس میں مذکور ہیں اور باقی چار کا ذکر اگلے درس میں آئے گا یہ چھ صفات دراصل پوری نوع انسانی کے لیے ہدایت کا پروگرام ہے۔ نبی اور رسول اس آیت کریمہ میں جس ذات کے اتباع کو لازم قرار دیا گیا ہے اس کے لیے نبی اور رسول دونوں الفاظ استعمال کیے گئے ہیں دونوں میں فرق یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس پر وحی آتی ہے اور احکام نازل ہوتے ہیں اور رسول وہ ہوتا ہے جس پر وحی تو بہرحال نازل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ مستقل کتاب یا صحیفہ اور مستقل شریعت بھی نازل ہوتی ہے حضرت ابوذرغفاری ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ حضرت ! انبیاء (علیہم السلام) میں سب سے پہلا نبی کون ہے اور سب سے آخری کون ؟ حضور ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے نبی حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور سب سے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں انہوں نے پھر عرض کیا حضور ! ان میں رسول کتنے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا تین سو پندرہ رسول ہیں اور باقی کم و بش ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب جملہ نبی ہیں محقق دوانی نے نبی کی تعریف یہ لکھی ہے ھو انسان بعثہ اللہ تلبلیغ ما اوحی اللہ الیہ کہ نبی انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اس پر کی گئی وحی کے احکام آگے پہنچانے پر مامور کرتا ہے اور رسول صاحب رسالت ، خدا کا پیغام پہنچانے والا تو الرسول سے مرا دعظیم الشان رسول ہے جیسا کہ پہلی سورتوں میں گزر چکا ہے ثم جاء کم رسول مصدیق لما معکم لتومنن بہ ولتصرنہ (ال عمران) پھر جب تمہارے پاس وہ رسول آگیا جو تصدیق کرنے والا ہوگا اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا جس کا سب نے اقرار کیا کہ ہاں اگر ہم نے اس رسول کو اپنے زمانے میں پایا تو اس پر ایمان بھی لائیں گے اور اس کی مدد بھی کریں گے بہرحال یہاں پر جس رسول کے اتباع کو رحمت خاصہ کے لیے شرط قرار دیا جارہا ہے وہ یہی عظیم الشان رسول ہیں۔ لفظ امی کا مفہوم آپ کی ایک صفت یہ ہے کہ آپ الامی ہیں اس لفظ کے متعدد معانی ہوسکتے ہیں عربی زبان میں ام ماں کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا اصل ہوتی ہے اور اس سے کوئی دوسری چیز نکلتی ہے جب کوئی بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بالکل ناخواندہ ہوتا ہے پڑھنے لکھنے کا موقع کہیں بعد میں جاکر ملتا ہے اس لحاظ سے نوزائیدہ بچے کو امی کہہ سکتے ہیں جس نے ابھی تک کسی سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا ہوتا چونکہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی کسی شخص سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا اس لیے آپ کا لقب امی ہے پوری عرب قوم کا لقب بھی امی ہے اور خود حضور ﷺ کی قوم کو امیین کہا گیا ہے۔ ” ھوالذی بعث فی الامین رسولاً منھم “ (الجمعۃ) وہ وہی ذات ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے عظیم الشان رسول مبعوث فرمایا شعیب (علیہ السلام) کے صحیفے میں بھی موجود ہے انی البعث امیا فی الامیین اللہ نے فرمایا کہ میں امیوں میں ایک امی رسول بھیجوں گا اسی طرح کی پیشین گوئیاں تورات ، انجیل اور دیگر کتب میں بھی موجود تھیں حتیٰ کہ آج کی محرف شیدہ ایبل تورات اور انجیل میں بھی نبی امی کے متعلق پیشین گوئیاں موجود ہیں حضور خاتم النبیین کا امی لقب اس لحاظ سے بھی ہے کہ آپ نے اپنی امت کے متعلق فرمایا انا امۃ امیۃ لانکتب ولا نحسب یعنی ہم تو امی امت ہیں ہم نہ تو لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب کرنا ، چناچہ دوہزار سال تک عربوں میں دفتر کاروبار بالک نہیں ملتا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ مبارک سے پہلے عربوں کی شرح خواندگی تین چار فیصد سے زیادہ نہ تھی البتہ عربوں کے علاوہ باقی اقوام نوشت و خواند سے واقف تھیں وہ دفتری کاروبار سے بھی واقف تھے ایرانی ، رومی ، مصری ، اطالوی اور یورپی اقوام لکھنا پڑھنا جانتے تھے یہود و نصاریٰ بھی اہل کتاب کہلاتے تھے اور پڑھے لکھے شمار ہوتے تھے صرف عرب ایسے تھے جو لکھنے پڑھنے سے عاری تھے ان کا تمام کاروبار زبانی یاداشت پر ہوتا ہے ان لوگوں کا حافظہ بڑا زبردست تھا شعرا کا سارا کلام لوگوں کو ازبر ہوتا تھا اللہ تعالیٰ نے نوشت و خواندگی کی کسر حافظے میں پوری کردی تھی ان کی یاد داشت کا یہ عالم تھا کہ جب چاہو سن لو کہ فلاں شاعر نے فلاں مقام پر قصیدہ پڑھا تھا انہیں اس حد تک یاد ہوتا تھا کہ ہم فلاں پانی پر جانور چرا رہے تھے وہاں فلاں شاعر آیا اور اس نے یہ کلام سنایا۔ زبان کی حفاظت نزول قرآن کے زمانے میں دیہات کے رہنے والے بدو اپنی زبان کی بڑی حفاظت کرتے تھے اور وہ زبان کے معاملہ میں معیار سمجھے جاتے تھے اسی لیے لوگ اپنے بچوں کو ابتدائی عمر میں دیہات میں بھیج دیتے تھے ایک تو باہر کھلی آب و ہوا شہروں کی نسبت اچھی سمجھی جاتی تھی اور دوسرا یہ کہ دیہات میں رہ کر بچوں کی زبان ٹھیک تربیت پاتی تھی شہری ماحول میں دوسرے ممالک سے بھی لوگ آتے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہاں کی زبان دوسری زبانوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتی البتہ دیہات کی زبان اس خلط ملط سے محفوظ رہتی تھی لہٰذا دیہاتی زبان ہی خالص اور بہتر سمجھتی جاتی تھی خود حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابتدائی چار سال دیار بنی بکر میں گزارے اور آپ کی ابتدائی پرورش دیہاتی ماحول میں ہوئی غرضیکہ نبی امی کا معنی یہ ہے جو ناخواندہ تھے اور جنہوں نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا البتہ عطائے نبوت کے بعد آپ نے معجزے کے طور پر خاص اوقات میں لکھا بھی اور پڑھا بھی ورنہ آپ نے عالم حالات میں کسی معلم سے لکھنے پڑھنے کا درس نہیں لیا کسی شاعر نے کہا ہے ؎ نگار من بہ متکب نہ رفت و خط نو نوشت بحیر تم کہ بغمزہ آموخت و صدر مدرس شد یعنی میرا نگار (معشوق) عجیب ہستی ہے کہ نہ وہ کسی مدرسے میں گیا اور نہ نوشت و خواند کا درس لیا مگر عجیب بات ہے کہ وہ اشارے سے سب کچھ سیکھ کر صدر مدرس بن گیا یہ بات حضور ﷺ پر بھی صادق آتی ہے آپ کا منبع علم و حی الٰہی ہے اور وحی کا معنی مخفی اشارہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو سب کچھ سکھایا چناچہ اس لحاظ سے بھی آپ کا امی لقب درست ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے قرآن پاک نے پوری عرب قوم کو امی کا لقب عطا کیا ہے۔ حضور ﷺ کا امی لقب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا امی لقب اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ آپ ام القریٰ کے رہنے والے ہیں اور آپ کے فرائض منصبی میں داخل ہے لتنذر ام القریٰ ومن حولھا کہ آپ ام القریٰ اور اس کے اردگر والوں کو ڈرائیں سورة انعام ہی میں ہے کہ آپ کہہ دیں کہ یہ قرآن پاک میری طرف اس لیے وحی کیا گیا ہے لانذرکم بہ ومن بلغ تاکہ میں اس کے ذریعے تمہیں بھی اور ان سب کو ڈرائوں جن تک یہ کتاب پہنچے حضور ﷺ کا مولد مکہ مکرمہ ہے جسے ام القریٰ بھی کہا گیا ہے لہٰذا آپ کے امی لقب کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا قیامت والے دن سارے نبیوں کو نور کے منبروں پر بٹھایا جائے گا اور ایک منبر سب سے بلند اور سب سے زیادہ نورانی ہوگا پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا تمام نبیوں میں امی نبی کون ہیں اس پر تمام انبیاء کہیں گے ہم امی نبی ہیں کیونکہ ہم سب کی اپنی اپنی امت تھی جس طرح مکہ اور مدینہ کی طرف نسبت کرکے کسی کو ملکی یا مدنی کہا جاتا ہے اسی طرح تمام انبیاء اپنی اپنی امت کی نسبت سے اپنے آپ کو بطور امی پیش کریں گے اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ وہ امی نبی کون ہیں جو عربی ہیں اور جو احمد ہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں اپنے آپ کو پیش کروں گا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ آپ جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں میں دروازہ کھٹکھٹائوں گا اور وہ کھولا جائے گا حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ سب سے پہلے مجھ پر تجلی فرمائے گا میں اس تجلی کو دیکھ کر سجدہ ریز ہوجائوں گا اور جب تک خدا کو منظور ہوا سجدہ میں پڑا رہوں گا پھر حکم ہوگا آپ سر اٹھائیں اور سوال کریں آپ کی بات مان یجائے گی آپ سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ سجدے کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریف کروں گا جو اس سے پہلے کسی نے نہ کی ہوگی بلکہ اس تعریف کے الفاظ آج بھی معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اسی وقت الفا کرے گا اور میں ادا کروں گا بہرحال اس حدیث میں بھی نبی امی ہے مراد امت والا نبی ہے پھر یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن حضور ﷺ کی امت تعداد میں تمام امتوں سے زیادہ ہوگی تو بایں معنی بھی آپ امی نبی ہیں کہ آپ عظیم الشان است کے نبی ہیں بہرحال امی کے یہ تین معانی ہوسکتے ہیں ایک ناخواندہ ، دوسرے ام القریٰ کے رہنے والے اور تیسرے امت کی نسبت سے امی ، تاہم زیادہ مشہور معنی ایہی ہے کہ آپ ناخواندہ تھے آپ نے نوشت و خواند کسی سے نہیں سیکھا تھا۔ سابقہ کتب کی شہادت فرمایا کہ وہ نبی امی جس کو اہل کتاب تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ آپ کا یہ لقب سابقہ کتب سماویہ میں بھی موجود تھا جسے یہود و نصاریٰ نے تبدیل کردیا حضور ﷺ کے متعلق تورات اور انجیل میں یہ پیشین گوئی پچھلی صدی تک موجود تھی کہ وہ فاران کی چوٹیوں سے دس ہزار قدسیوں کی جماعت کے ساتھ جلوہ گر ہوگا اس کے دائیں ہاتھ میں آتشیں شریعت ہوگی اور وہ دنیا کی اقوام سے محبت کرنے والا ہوگا دنیا کی یہ اقوام اس کے قدموں میں اکٹھی کی جائیں گی۔ جب یہود و نصاریٰ کو پتہ چلا کہ نبی آخر الزمان دس ہزار صحابہ کی جماعت کے ساتھ فتح مکہ کے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تھے تو سمجھ گئے کہ اس سے تو آپ کی نبوت و رسالت کی تصدیق ہوئی ہے مگر وہ انکار کرچکے تھے لہٰذا انہوں نے دس ہزار کے الفاظ کے الفاظ تبدیل کرکے ان کی جگہ لاکھوں قدسیوں کے الفاظ لکھ دیے اور اس طرح کتاب الٰہی میں تحریف کے مرتکب ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے یحرفون الکم عن مواضعہ (النسائ) جس عبارت سے اسلام کی صداقت ظاہر ہوتی تھی یہ ظالم اس عبارت کو ہی تبدیل کردیتے تھے علاوہ ازیں انجیل میں یہ پیشیں گوئی بھی موجود تھی کہ میرے بعد فار قلیط آئے گا یہ عبرانی اور سریانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ستودہ جہان ہے عربی میں اس کا ہم معنی لفظ احمد ہے چناچہ قرآن میں یہی لفظ آیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہاری طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں میں تصدیق کرنے والا ہوں اس چیز کو جو اس سے پہلے تورات میں ہے ” ومبشراً برسول یاتی من بعدی “ اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آنے والا ہے اسمہ احمد (سورۃ صف) جس کا نام نامی احمد ہوگا فار قلیط کا لفظ پچھلی صدی تک انجیل میں موجود تھا مگر اس صدی کی شائع شدہ انجیلوں میں اس کی بجائے مددگار کا لفظ لگا دیا گیا ہے کسی نسخے میں شفیع ہے اور کسی میں مددگار۔ تحریف کی یہ بھی ایک زندہ مثال ہے اب تک ایسی ہزاروں تحریفیں ہوچکی ہیں جن کا مقصود یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر آخرالزمان کی حقانیت کو چھپایا جاسکے مگر اس کے باوجود تحریف شدہ نسخوں میں بھی کوئی نہ کوئی چیز ایسی نکل آتی ہے جو اسلام کی حقانیت پر واضح دلیل بن جاتی ہے یہ تو قرآن پاک اور اسلام کی صداقت اور معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی صورت میں اسے ظاہر کردیتا ہے وگرنہ یہ معکرس ذہنیت کے لوگ ہیں اور آج تک قرآن پاک کی صداقت کے قائل نہیں ہوئے ان عنادی لوگوں نے مسیح (علیہ السلام) کو دجال کہہ کر سولی پر لٹکانے کی کوشش کی اور جب دجال ظاہر ہوگا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اصفہان کے ستر ہزار یہودی لمبے لمبے چغے پہنے دجال کو مسیح سمجھتے ہوئے اس کے لشکر میں شریک ہوں گے اور اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے بہرحال اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ تورات و انجیل میں نبی امی کی پیشین گوئیاں لکھی ہوئی پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے مستحقین کو چوتھی صفت یہ ہے کہ نبی امی کا اتباع کرنے والے ہوں گے۔ قریب المرگ بچے کی حق گوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی ابوسحرعقیلی ؓ ہوئے ہیں جو دیہات کے رہنے والے تھے مگر کاروبار کے سلسلے میں شہر میں بھی آمدورفت تھی پہلی دفعہ مدینے آئے تو حضور ﷺ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی کیونکہ وہ آپ کی تعریف سن چکے تھے وہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ اور بعض دیگر صحابہ ؓ کے ہمراہ ایک یہودی کے گھر اس کے بیمار لڑکے کی عیادت کے لیے جا رہے تھے ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ یہودی لڑکا آپ کی خدمت بجا لایا کرتا تھا بہرحال آپ وہاں تشریف لے گئے لڑکا قریب المرگ تھا اور اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا تورات پڑھ رہا تھا حضور ﷺ نے اس کے باپ کو مخالب کرکے فرمایا کہ میں تجھے قسم دلا کر پوچھتا ہوں کہ تم میرے متعلق اور میری ہجرت کے متعلق تورات میں لکھا ہوا پاتے ہو یا نہیں اس کے جواب میں یہودی نے ایسی کسی پیشین گوئی کا انکار کردیا اس پر وہ قریب المرگ لڑکا بول اٹھا کر کہنے لگا یا رسول اللہ میرا باپ غلط کہتا ہے خدا کی قسم ہر تورات میں آپ کی صفت اور آپ کی ہجرت کے متعلق لکھا ہوا پاتے ہیں اور پھر اس نے کلمہ شہادت پڑھ دیا اشھد ان لا الہ اللہ واشھدان محمد رسول اللہ اس کے بعد لڑکا فوت ہوگیا حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اب اس بچے کا اس کے باپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس کی لاش کو سنبھال لو اور اس کا کفن دفن کرو ، یہ مسلمان ہوچکا تھا اور اسی حالت میں فوت ہوا چناچہ صحابہ کرام ؓ نے خود اس بچے کے کفن دفن کو انتقام کیا ۔ حضور ﷺ کی صفات سابقہ کتب میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ پہلی کتابوں کے عالم کعب احبار وغیرہ کا بیان موجود ہے کہ حضور کی بعض صفات جو تورات میں موجود تھیں وہ قرآن پاک میں بھی آئی ہیں مثلاً قرآن پاک میں مبشراً و نذیراً کی صفات ہیں اور یہی صفات تورات میں بھی پائی جاتی تھیں کہ آپ مبشر اور نذیر ہوں گے تورات میں آپ کی یہ صفت بھی موجود تھی کہ آپ بازاروں میں شوروشر کرنے والے نہیں ہوں گے جس طرح قرآن پاک میں ہے کہ اگر آپ فظاً غلیظ القلب (ال عمران) یعنی سخت مزاج اور تنگ دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے گرد جمع نہ ہوتے اسی طرح تورات میں بھی تھا لیس بفظ ولا غلیظ یعنی آپ نہ سخت مزاج ہیں اور نہ تنگ دل تورات میں آپ کے متعلق حرزاً للامین کے الفاظ بھی پائے جاتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ امیوں کی پناہ گاہ ہیں آپ کی یہ بھی صفت ہے لا یجزی السیئۃ بالسیئۃ یعنی آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے نیز یہ بھی یعفو و یصفحوا آپ درگزر فرماتے ہیں اور معاف کردیتے ہیں تورات میں مذکوران میں سے بعض صفات قرآن پاک اور بعض احادیث میں موجود ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر فرمایا وہ نبی امی جس کی صفات تورات اور انجیل میں موجود ہیں وہ یہ امور انجام دیتے ہیں پہلی بات یہ کہ یامرھم بالمعروف یعنی جو لوگ بنی امی کا اتباع کرتے ہیں وہ ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے معروف اس نیکی اور اچھے کام کو کہتے ہیں جسے شریعت اور عقل سلیم دونوں اچھا سمجھیں اس میں ایمان ، توحید ، نیکی ، اخلاق حسنہ ، والدین کی خدمت اور صلہ رحمی وغیرہ شامل ہیں یہ ایسی چیزیں ہیں جو شریعت او عقل سلیم دونوں کی کسوٹی پر پورا اترتی ہیں البتہ اس معاملہ میں شریعت معیار ہے گویا معروف یا نیکی وہ ہوگی جسے شریعت معروف کہے اور عقل سلیم اس کی تائید کرے۔ فرمایا وہ نبی امی ایک تو نیکی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا وینھہم عن المنکر اور ان کو برائی سے منع کرتا ہے برائی کی تعریف بھی ویسی ہی ہے جیسی نیکی کی یعنی برائی وہ ہے جسے شریعت اور عقل سلیم برائی کہیں کسی کام کے برا ہونے کا فیصلہ بھی شریعت کرتی ہے اور عقل سلیم اس کی تائید کرتی ہے منکرات میں کفر ، شرک ، ظلم ، زیادتی ، بدعت ، نفاق قطع رحمی ، والدین کی نافرمانی ، حق تلفی وغیرہ شامل ہیں اسی طرح چوری ، ڈاکہ ، زنا ، حرام خوری اور دیگر تمام بری باتیں منکرات کی تعریف میں آتی ہیں الغرض معروف اور منکر دو حقیقتیں ہیں جو قیامت کے دن سامنے آئیں گی اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا تمام بنی نوع انسان کے لیے اجتماعی پروگرام ہے اس پر عملدرآمد سے دنیا میں امن و سکون قائم رہ سکتا ہے حضور ﷺ کی صفات کے ضمن میں یہ پروگرام بتا دیا گیا ہے اور پھر آپ کے اتباع میں آپ کی امت کے لوگ بھی مربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں قرآن پاک کے متعدد مقامات پر اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں …………… یہ کام کبھی زبان سے کیا جاتا ہے کبھی ہاتھ سے کبھی قانون سے اور کبھی طاقت سے جس مقام پر جو نسی چیز کار آمد ہو اسی کو بروئے کار لایا جاتا ہے انفرادی طور پر ایک دوسرے کو زبان اور ہاتھ سے نیکی کا حکم یا برائی سے روکا جاتا ہے اگر یہ سزا انفرادی قوت سے باہر ہو تو پھر قانون کے ذریعے اچھائی کو پھیلایا جاتا ہے اور برائی کا قلع قمع کیا جاتا ہے اگر قانون پر عملدرآمد نہ ہو تو پھر اس کام کے لیے ریاست کی طاقت استعمال کی جاتی ہے بہرحال یہاں پر نبی امی کی یہ دو صفات بیان کی گئی ہیں اور باقی چار صفات اسی آیت میں آگے آرہی ہیں۔ ربط آیات اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کا ذکر ہورہا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لیے اس رحمت کی دعا کی تھی مگر اللہ نے فرمایا کہ اس کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کی ساری باتوں پر یقین رکھتے ہیں نیز فرمایا کہ رحمت خاصہ ان لوگوں کا حق جو اس نبی و امی کا اتباع کرتے ہیں جسے وہ تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور پھر اس نبی کی دو صفات کا ذکر پچھلیے درس میں ہوچکا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اب اس درس میں نبی کی باقی چار صفات کا ذکر آرہا ہے اس عظیم المرتبت نبی کے امی ہونے کی وجہ تسمیہ میں نے کل عرض کردی تھی کہ یا تو اس وجہ سے ان کا لقب امی ہے کہ وہ ام القریٰ یعنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے یا اس وجہ سے کہ آپ عظیم المرتبت امت کے نبی ہیں اور یا اس وجہ سے کہ آپ نوزائیدہ بچے کی طرح بالکل ناخواندہ تھے آپ نے کسی معلم یا استاد سے نوشت و خواند کا درس نہیں لیا تھا۔ حلت و حرمت کا قانون آپ آج کے درس میں نبی امی کی تیسری اور چوتھی صفت کے متعلق فرمایا ویحل لھم الطیبت وہ ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے ویحرم علیھم الخبث اور ان پر خبیث یا ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت کا قانون قرآن پاک میں متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے یہ ایک اہم قانون ہے جس کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے یایھا الناس کلو مما فی الارض حللاً طیباً ز ولا تتبعوا خطوت الشیطن (البقرہ) اے لوگو ! زمین میں اللہ کی پیدا کردہ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حلت و حرمت اور پاک اور ناپاک کی تمیز نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے قانون پر عمل نہیں کرتا اور شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے یا خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرتا ہے ایسا شخص کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا کیونکہ فلاح ، ترقی اور سربلندی اسی صورت میں حاصل ہوگی جب کہ حلال و حرام کے قانون کی پابندی کی جائے یہ بڑا ضروری قانون ہے جسے طیبات اور خبائث کے نام سے بیان کیا گیا ہے حضور ﷺ نے اس کی تشریح بھی بیان کی ہے۔ اس آیت کریمہ میں حلت و حرمت کے فعل کو نبی (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ وہ پاک چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرار قرار دیتا ہے یہاں پر اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا اور حقیقت اللہ تعالیٰ کا کام ہے یہ اس کی تکوینی صفت ہے نبی خود کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہیں دیتا بلکہ وہ اللہ کی حرام یا حلال کردہ چیز کو بتلانے والا ہوتا ہے اور نبی کا بتلانا اس بات کی قطعی علامت ہوتا ہے کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے۔ پاکیزہ چیزوں کی حلت فرمایا وہ نبی ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور پھر ان کی وضاحت بھی فرماتا ہے کہ پاک چیزوں کی علامت کیا ہے اور پھر اسے استعمال کرنے کا طریقہ کونسا ہے ؟ پچھلی سورة انعام میں مہیمۃ الانعام کا قانون بیان ہوچکا ہے یہ ایسے جانور ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے ان کی علامت یہ ہے کہ گھاس کھاتے ہیں اور جگالی کرتے ہیں یہ آٹھ قسم کے جانور ہیں جن کی تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے یعنی اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری یہ اور ان سے ملتے جلتے جانوروں کے نر اور مادہ دونوں حلال ہیں ان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ یہ جانور انسانوں سے مانوس ہوتے ہیں اور اکثر گھروں میں پالے جاتے ہیں ان کا گوشت دودھ اور چمڑا سب حلال ہیں البتہ ان کو شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ذبح کرنا یعنی بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر گلے پر چھری چلانا ضروری ہے اسی طرح پرندوں میں مرغ ، کبوتر وغیرہ قسم کے جانور بھی حلال ہیں ان کی علامت یہ ہے کہ یہ پنجہ مار کر شکار نہیں کرتے ان کو بھی مسنون طریقہ سے ذبح کرکے کھایا جاتا ہے ان جانوروں اور پرندوں کا گوشت انسانی مزاج کے عین مطابق ہے یہ انسانی جسم کے متام قویٰ کے لیے مفید ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے اہل ایمان کے لیے حلال قرار دیا ہے۔ خبث چیزوں کی حرکت اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو اہل ایمان کے لیے حرام قرار دیا ہے جن کے کھانے سے انسانی اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے انہی چیزوں کو خبائث یعنی ناپاک کا نام دیا گیا ہے انسان کے بنیادی اخلاق طہارت ، سماحت ، اخبات اور عدالت ہیں غذا کا اثران اخلاق پر براہ راست پڑتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں کھانے سے یا تو انسان کا جسمانی نقصان ہوتا ہے یا روحانی نقصان مثلاً محرمات اربعہ میں سے پہلا نمبر مردار کا ہے انما حرم علیکم المیۃ (البقرہ) اللہ نے تم پر مردار کو حرام قرار دیا ہے مردار تمام ملتوں میں بالاتفاق حرام ہے مردار جانور کا گوشت کھانے سے انسانی جسم میں کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح دم مسفوح (خونض کے استعمال سے جسمانی بیماریوں کے علاوہ سنگدلی جیسی روحانی بیماری بھی پیدا ہوتی ہے شیر اور ریچھ وغیرہ خون پینے والے جانور ہیں لہٰذا اللہ نے انہیں حرام قرار دیا ہے بلی ، کتا ، گیدڑ ، وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں لہٰذا حرام ہیں اس کے علاوہ گندگی کھانے والے کیڑے مکوڑے بھی انسانی جسم کے لیے غیر مفید بلکہ مضر ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں حرام قرار دیا ہے۔ خنزیر کا گوشت بھی محرمات اربعہ میں شمار ہوتا ہے امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد آنے والے تمام انبیاء نے لوگوں کو بتلایا ہے کہ خنزیر کا گوشت قطعی حرام ہے اس کی حرمت کی بھی کئی وجوہات ہیں مثلاً یہ نجاست خور اور بےغیرت جانور ہے اس کا گوشت کھانے والے بھی گندگی اور بےغیرتی کا شکار ہوتے ہیں آج دنیا میں خنزیر کا گوشت کھانے والے لوگ ان بیماریوں میں مبتلا نظر آتے ہیں خنزیر کی قطعی حرمت کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرب قیامت میں جب مسیح (علیہ السلام) اس زمین پر نزول فرمائیں گے تو خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے مسیح (علیہ السلام) کا ایسا کرنے سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس جانور کو تمام انبیاء کی شرائع میں حرام قرار دیا گیا عیسائیوں نے اسے بھی کھانا شروع کردیا نیز یہ بھی کہ عیسائیوں نے یہ شرکیہ عقیدہ قائم کرلیا کہ مسیح (علیہ السلام) کو سولی پر لٹکا دیا گیا حالانکہ آپ زندہ موجود ہیں پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سولی کا ماڈل بناکر اپنے گلے میں لٹکا لیا اور اسے مقدس صلیب تصور کیا غرضیکہ نصاریٰ کے غلط تصورات کی تردید کے لیے مسیح (علیہ السلام) خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے جس سے معلوم ہوا کہ خنزیر قیامت تک کے لیے حرام ہے اس کے کھانے سے جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ چوتھی حرام چیز نذرلغیر اللہ ہے ” وما اھل بہ لغیر اللہ “ (البقرہ) اللہ تعالیٰ کے علاو غیر کے نام پر نامزد کی ہوئی ہر چیز خواہ جانور ہو یا غلہ ، دودھ ہو یا مٹھائی ، قطعی حرام ہے اس چیز میں ظاہری جسم کے لیے تو کوئی خرابی نظر نہیں آتی مگر اس کے کھانے سے انسان میں روحانی نجاست پیدا ہوتی ہے اسی لیے جانور کو ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لینا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” ولا تاکلو ممالم یذکر اسم اللہ علیہ “ (الانعام) جس جانور پر بوقت ذبح اللہ کا نام نہ جائے اسے مت کھائو جس جانور کو شرعی طریقہ سے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے اس میں پاکیزگی آجاتی ہے اور جس پر اللہ کا نہ نام نہ لیاجائے اور مسنون طریقہ سے ذبح نہ کیا جائے وہ مردار کی مانند ہوتی ہے نذر غیر اللہ میں روحانی نجاست ہوتی ہے جس سے انسان کی روح ناپاک ہوجاتی ہے غیر اللہ کی نذر شرک ہے اور شرک کرنے والا نجس ہے انما المشرکون نجس (توبۃ) مشرکوں کی روح ناپاک ہوتی ہے اگرچہ ان کے ظاہری اجسام میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔ طائف سے مشرکین کا ایک وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے ان کا خیمہ مسجد کے ایک کونے میں لگوا دیا صحابہ نے عرض کیا حضور ! یہ مشرک لوگ تو ناپاک ہیں یہ مسجد میں کیسے ٹھہرائے گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ان کے ظاہری جسموں میں تو کوئی نجاست نہیں ہے البتہ انجم انجاس الناس علی انفسھم ان کی نجاست ان کی جانوں پر پڑی ہوئی ہے یہ روحانی طور پر نجس لوگ ہیں ان کے قلب و روح اور دل و دماغ پلید ہیں تو بہرحال معلوم ہوا کہ بعض آدمیوں کی روح پلید ہوتی ہے چناچہ نذر غیر اللہ کے کھانے والوں کی روح ناپاک ہوجاتی ہے اس لیے اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ملت براہیمیہ کے تمام آئمہ اس بات پر متفق ہیں کہ نذر غیر اللہ حرام ہے اور اس کے کھانے سے خاص قسم کی معنوی نجاست پیدا ہوتی ہے۔ دوائے خبیث کی ممانعت جسمانی یا روحانی نقصان کی وجہ سے بعض چیزوں کی حرمت کی مثال ترمذی شریف کی ایک روایت سے بھی ملتی ہے حضور ﷺ نے نھیٰ عن دواء الخبیث خبیث دوائی سے منع فرمایا ہے خبیث دوا سے مراد مضر جسم چیز ہے مثلاً سنکھیا یا کوئی دوسرا زہر اگرچہ ناپاک نہیں ہے محض ایک زہریلا پتھر ہے مگر آ پنے اسے کچا کھانے سے اس لیے منع فرما دیا ہے کہ یہ انسانی جسم میں جاکر معدے ، جگر اور گردوں کی ساخت کو تباہ کردیتا ہے اور انسان کے جسم سے خون جاری ہو کر ہلاکت کا باعث بنتا ہے اس کا استعمال اس صورت میں جائز ہے جب کہ اس کا کشتہ بناکر طبیب کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے غرضیکہ مسئلہ حلت و حرمت میں یہ بنیادی اصول کارفرما ہے کہ جو چیز انسانی جسم و روح کے لیے مفید ہے وہ طیب ہے اور حلال ہے اور جو چیز جسم و روح کے لیے مضر ہے وہ خبیث ہے اور حرام ہے اب رزق حلال طیبات میں شامل ہے جب کہ سود ، رشوت ، فراڈ ، چوری اور ڈاکے کا مال خبائث کا حصہ ہے سینما ، تھیٹر ، رقص و سرود شراب وغیرہ کی کمائی بھی ناپاک ہے اور اسی لیے حرام ہے ایسی چیزوں کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے اور ناپاک چیزوں سے روکنا ہے یہ اس کی تیسری اور چوتھی صفت ہوگئی۔ سخت احکام کا بوجھ اللہ کے نبی امی کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی ہے ویضع عنھم اصرھم و وہ لوگوں کے بوجھ اتارتا ہے یہاں پر بوجھ سے مراد وہ مشکل احکام ہیں جو اللہ نے بعض سابقہ امتوں پر ڈالے تھے مثلاً بنی اسرائیل کو اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے بہت سے مشکل احکام پر عمل کرنا پڑا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جن لوگوں نے بچھڑے کے پوجا کی غلطی کی تھی اللہ نے ان کی توبہ قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگائی کہ انہیں قتل کردیا جائے چناچہ ایسا ہی کیا گیا تاہم ہماری امت کیلئے اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدا فرمائی ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے بعثتم مبسرین تمہیں اللہ نے آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے اسی لیے ہماری امت کے گنہگاروں کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ انسان سچے دل سے نادم ہوجائے اور معافی مانگ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے البتہ اگر کسی کی حق تلفی کی ہے تو اس کی ادائیگی ضروری ہے کپڑے کی نجاست کو دور کرنے کے لیے ہماری امت کے لیح کم یہ ہے کہ پانی سے تین دفعہ دھو لیا جائے تو نجاست دور ہو کر کپڑا پاک ہوجاتا ہے برخلاف اس کے بنی اسرائیل کے لیے نجاست والے کپڑے کو پاک کرنے کے لیے نجاست شدہ حصہ کو قینچی سے کاٹنا پڑتا ہے تب جاکر باقی کپڑا پاک ہوتا تھا اسی طرح بنی اسرائیل کے لیے قتل کی سزا صرف قصاص تھی یعنی قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل ہی کرنا پڑتا تھا جب کہ ہمارے لیے دیت اور معافی کی گنجائش بھی موجود ہے بنی اسرائیل ہفتہ کے روز کوئی کام نہیں کرسکتے تھے حتیٰ کہ کھانا پکانا تک منع تھا مگر ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آسانی پیدا کردی ہے کہ صرف جمعہ کے روز جمعہ کی پہلی اذان سے لے کر نماز جمعہ کے اختتام تک کاروبار بند رکھنا ضروری ہے تماز کے بعد کاروبار دوبارہ شروع ہوسکتا ہے اللہ کا حکم کہ جب نماز سے فارغ ہوجائو فانتشروا فی الارض ابتغو من فضل اللہ (الجمعۃ) تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل یعنی رزق کی تلاش میں لگ جائو بنی اسرائیل صرف مقررہ عبادت خانے میں ہی عبادت کرسکتے تھے جب کہ آخری امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو مسجد بنا دیا ہے کوئی شخص کہیں بھی ہو وقت ہونے پر نماز ادا کرسکتا ہے البتہ بعض ناپاک مقامات پر نماز نہیں ادا کی جاسکتی مثلاً جانوروں کا باڑہ ، بوچڑ خانہ عام شاہراہ ، قبرستان وغیرہ میں نماز ادا نہیں کی جاسکتی اس کے علاوہ خشکی تری ہر جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ رسومات کا طوق اللہ نے اپنے نبی کی چھٹی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے اتارتا ہے والاغلل التی کانت علیھم وہ وطوق جو ان پر پڑے ہوئے ہیں اغلال ، غل کی جمع ہے جس کا معنی طوق ہوتا ہے اور یہاں پر اس سے مراد فاسد رسومات ہیں جن میں بنی اسرائیل پھنسے ہوئے تھے اور جن سے نبی آخرالزمان نے آکر ان کو چھڑایا تو معنی یہ ہوگا کہ وہ نبی امی جو باطل رسومات کو ان سے موقوف کرتا ہے غلط قسم کی رسمیں انسانوں کے گلے میں طوق کی طرح پڑجاتی ہیں جن سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے یہ قباحت اب آخری امت میں بھی سرائت کرچکی ہے شرک ، بدعت اور رسم و رواج کی رسومات وبال جان بن چکی ہیں شادی کا موقع ہو یا غمی ، لوگ فضول رسومات کی ادائیگی میں ہی عزت سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ کا نبی تو انہیں مٹانے کے لیے آیا تھا للہ نے اپنے نبی کی تعریف بیان کی ہے کہ وہ باطل رسومات کو مٹاتا ہے غرضیکہ سخت احکام اور رسوم و رواج لوگوں کی گردنوں کا طوق بن جاتے ہیں جنہیں ہٹانا نبی کے فرائض میں داخل ہے یہ نبی کی چھٹی صفت بھی بیان ہوگئی۔ کامیابی کا راز آگے ارشاد ہوتا ہے فالذین امنو بہ جو لوگ اس نبی پر ایمان لے آئے وعزروہ اور آپ کی رفاقت اور تائید کی ونصروہ اور اس کی مدد کی یعنی تبلیغ دین کے معاملہ میں نبی کی معاونت کی۔ واتبعوا النور الذی انزل معہ اور اس نور کا اتباع کیا جو نبی کے ساتھ اتارا گیا ہے یعنی نبی نے جو کتاب پیش کی ہے اس کے احکام پر عمل کیا قرآن پاک کو بھی نور کہا گیا ہے انزلنا الیکم نوراً مبینا ہم نے تمہاری طرف واضح نور نازل کیا اس نور سے مراد ہدایت کی روشنی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی رہنمائی کرتی ہے انسان کو کوئی بھی مشکل درپیش ہو ، قرآن پاک وہ روشنی ہے جس کے ذریعے تمام مسائل حل ہوتے ہیں اسی لیے فرمایا جس نے نبی کے ہمراہ نازل ہونے والی روشنی یعنی کتاب کا اتباع کیا اولیک ھم المفلحون یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اتباع کے سلسلے میں قرآن کے ساتھ ساتھ سنت پر بھی عملدرآمد ضروری ہے امام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں کہ سنت قرآن کے اصولوں کی تشریح کرتی ہے گویا قرآن متن ہے تو سنت تشریح ہے اس لیے جب تک سنت پر عمل نہیں ہوگا قرآن پاک پر کماحقہ عمل نہیں ہوسکتا تو فرمایا جو لوگ نبی امی پر ایمان لائے اس کی تائید کی اس کی مدد کی اور اس پر نازل ہونے والی کتاب اور خود اس کی سنت کا اتباع کیا تو یہی لوگ کامیابی کی منازل طے کرنے والے ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے مستحق ہیں اگر یہود و نصاریٰ بھی نبی امی کا دامن پکڑ لیں تو وہ بھی مستحقین کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے ورنہ وہ محروم رہ جائیں گے ان کے حق میں موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول نہیں ہوگی کامیابی کا راز اس آیت میں بیان کردیا گیا ہے۔
Top