Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 78
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آپکڑا الرَّجْفَةُ : زلزلہ فَاَصْبَحُوْا : تو رہ گئے فِيْ : میں دَارِهِمْ : اپنے گھر جٰثِمِيْنَ : اوندھے
سو ان کو پکڑ لیا زلزلہ نے۔ سو وہ اوندھے منہ ہو کر اپنے گھروں میں پڑے رہ گئے۔
سورة اعراف میں فرمایا (فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ) (ان کو پکڑ لیا سخت زلزلہ نے لہٰذا وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے) اور سورة ہود میں فرمایا (وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا اَلَآ اِنَّ ثَمُوْدَا کَفَرُوْا رَبَّھُمْ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ ) (اور پکڑ لیا ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا چیخ نے، سو وہ لوگ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے جیسے ان میں کبھی رہے ہی نہ تھے۔ خبر دار ثمود نے اپنے رب کی نا شکری کی، خبر دار دوری ہے ثمود کے لیے) ۔ دونوں آیتوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ قوم ثمود پر دونوں طرح کا عذاب آیا زلزلہ بھی آیا اور چیخ بھی۔ حضرات مفسرین نے فرمایا ہے کہ زلزلہ نیچے سے آیا اور چیخ کی آواز انہوں نے اوپر سے سنی اور بعض حضرات نے یوں کہا ہے کہ زلزلہ سے جب زمین پھٹتی ہے تو اس سے آواز آتی ہے اور یہ آواز بھیانک ہوتی ہے جس کی وجہ سے سننے والوں کے دل لرز جاتے ہیں اور ہوش کھو بیٹھے ہیں اس لیے زلزلہ کو صیْحَۃٌ (یعنی چیخ) سے تعبیر کیا۔ سورۂ حٰمٓ سجدہ میں بھی قوم ثمود کی سر کشی اور بربادی کا ذکر ہے۔ قَال اللّٰہُ تَعَالیٰ (وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاھُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدَی فَاَخَذَتْہُمْ صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) (اور جو ثمود تھے ہم نے ان کو راستہ بتلایا سو انہوں نے ہدایت کے مقابلہ گمراہی کو پسند کیا پس ان کو عذاب نے پکڑ لیا جو سراپا ذلت تھا) اس آیت میں ثمود کے عذاب کو (صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ ) سے تعبیر فرمایا۔ لفظ صاعقہ ایسی سخت آواز کے لیے بولا جاتا ہے جو اوپر سے سنائی دے۔ امام راغب مفردات میں لکھتے ہیں کہ اس سے کبھی آگ پیدا ہوتی ہے۔ کبھی یہ عذاب بن کر آتی ہے اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے اس لیے اس کو تینوں معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ 1 ھ چونکہ قوم ثمود کی ہلاکت رجفہ یعنی زلزلہ اور چیخ کے ذریعہ ہوئی تھی اس لیے سورة حٰمٓ سجدہ میں جو لفظ صاعقہ وارد ہوا ہے بعض حضرات نے اسے مطلق عذاب کے معنی میں لیا ہے لیکن اس میں بھی کوئی تعارض نہیں ہے کہ رجفہ، صیحہ، صاعقہ (اوپر سے سنائی دینے والی سخت آواز) تینوں طرح کا عذاب آیا ہو۔ حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ ج 2 ص 136 میں لکھا ہے کہ قوم ثمود پوری قوم عذاب میں ہلاک ہوگئی۔ البتہ ان میں ایک عورت تھی جس کا نام کلبہ تھا وہ حضرت صالح (علیہ السلام) سے بہت زیادہ عداوت رکھتی تھی اس نے جب عذاب دیکھا تو وہاں سے تیزی سے دوڑی اور عرب کے ایک قبیلہ کو جا کر خبر دی اور ان لوگوں سے پانی طلب کیا پھر پانی پی کر مرگئی۔ پھر ص 178 پر بحوالہ مصنف عبدالرزق، ابو رغال کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت نبی اکرم ﷺ ابو رغال کی قبر پر گزرے اور فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ کون ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ! آپ نے فرمایا یہ ابو رغال کی قبر ہے یہ شخص قوم ثمود میں تھا جب ان لوگوں پر عذاب آیا تو یہ شخص حرم مکہ میں تھا حرم میں ہونے کی وجہ سے اس پر عذاب نہ آیا جب حرم سے باہر آیا تو یہ بھی اسی عذاب میں مبتلا ہو کر مرگیا جو اس کی قوم پر آیا تھا اور اسے یہاں دفن کردیا گیا۔ اس کے ساتھ سونے کی ایک ٹہنی بھی دفن کی گئی۔ حضرات صحابہ ؓ سواریوں سے اترے اور جلدی سے آگے بڑھے قبر کھودی اور اس میں سے سونے کی ٹہنی نکل آئی۔ یہ واقعہ طائف کو جاتے ہوئے پیش آیا تھا۔ یہ قصہ حضرت امام ابوداؤد نے بھی اپنی سنن میں نقل کیا ہے۔ (راجع آخر حدیث من کتاب الخراج) (فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ ) (الآیۃ) (سو صالح (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے منہ پھیرلیا اور وہاں سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمایا کہ اے میری قوم ! بلاشبہ میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے) یہ خطاب حضرت صالح (علیہ السلام) نے کب فرمایا ؟ بعض مفسرین نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ جب قوم پر عذاب آنے کے آثار دیکھ لیے اور محسوس فرما لیا کہ عذاب آنے ہی کو ہے تو حضرت صالح (علیہ السلام) ان کو چھوڑ کر روانہ ہوگئے اور ان سے یہ آخری خطاب فرمایا جو حسرت بھرے انداز میں ہے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جب ان کی قوم ہلاک اور برباد کی گئی تو ان سے یہ خطاب فرمایا۔ یہ خطاب ایسا ہی ہے جیسا بدر میں مقتول ہونے والے کافروں سے حضور اکرم ﷺ نے خطاب فرمایا تھا جن کی نعشیں ایک کنویں میں پڑی ہوئی تھیں، یہ فرما کر حضرت صالح (علیہ السلام) اہل ایمان کو لے کر فلسطین کی طرف چلے گئے اور وہیں قیام پذیر ہوئے، چونکہ قوم ثمود کی بستیوں پر عذاب آچکا تھا اس لیے یہاں رہنا گوارا نہ فرمایا۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ جب تبوک تشریف لے جا رہے تھے تو اس وادی سے گزرے اس وقت آپ چہرہ انور پر کپڑا ڈالے ہوئے تھے۔ آپ تیزی سے گزرے اور اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ یہاں سے تم دوڑتے ہوئے گزرو ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہ عذاب پہنچ جائے جو ان لوگوں کو پہنچا تھا۔ نیز آپ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ عذاب کی جگہ پر کوئی نہ جائے اور نہ وہاں کے کنویں کا پانی استعمال کرے۔ حضرات صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ ! ہم نے تو یہاں کے کنوؤں کے پانی کو استعمال کیا ہے اور اس پانی سے آٹا گوندھا ہے آپ نے فرمایا کہ پانی گرا دو اور جو آٹا گوندھا ہے اسے اونٹوں کو کھلا دو ۔ (صحیح البخاری ص 478 و ص 479 ج 1 و ص 637 جلد نمبر 2)
Top