Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 78
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آپکڑا الرَّجْفَةُ : زلزلہ فَاَصْبَحُوْا : تو رہ گئے فِيْ : میں دَارِهِمْ : اپنے گھر جٰثِمِيْنَ : اوندھے
تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا تو انھوں نے اپنے گھر میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ۔۔ : سورة ہود (65، 66) میں ہے کہ صالح ؑ نے جب دیکھا کہ انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا ہے تو انھیں تین دن کی مہلت دی، جب یہ مہلت پوری ہوگئی تو ان پر عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے صالح ؑ اور آپ کے اہل ایمان ساتھیوں کو بچا لیا، ان کے سوا ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ تفاسیر و احادیث میں ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص ابو رغال ان دنوں حرم میں مقیم تھا، وہ عذاب سے محفوظ رہا، لیکن جب وہ حرم چھوڑ کر طائف کی طرف روانہ ہوا تو وہ بھی ہلاک ہوگیا اور راستے میں دفن کردیا گیا۔ امیر المومنین عمر ؓ نے ذکر فرمایا کہ راستے سے گزرنے والے اس کی قبر پر سنگ باری کرتے تھے۔ [ ابن حبان : 463 ] جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ نے آسمان کے نیچے ان سب کو ہلاک کردیا، صرف ایک شخص بچا جو حرم میں تھا۔“ پوچھا گیا : ”وہ کون تھا ؟“ تو آپ نے فرمایا : ”وہ ابو رغال تھا، لیکن جیسے ہی وہ حرم سے نکلا عذاب نے اسے بھی پکڑ لیا۔“ [ مستدرک حاکم : 2؍320، ح : 3248۔ أحمد : 3؍296، ح : 14160 ] شعیب ارنؤوط اور اس کے ساتھیوں نے اس حدیث کو قوی کہا ہے۔ یہاں ”الرَّجْفَةُ“ (زلزلے) کا ذکر ہے، سورة ہود (67) میں ”الصَّيْحَةُ“ (چیخ) کا ذکر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم پر دو طرح کا عذاب آیا، اوپر سے صیحہ (چیخ) اور نیچے سے زلزلہ، یا وہ خوف ناک آواز یعنی چیخ زلزلے ہی کی تھی، جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ زلزلے کے ساتھ خوف ناک آواز بھی ہوتی ہے۔ ”جٰثِمِيْنَ“ یہ ”جُثُوْمٌ“ سے اسم فاعل ہے، یہ انسان اور پرندوں کے لیے انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں اونٹوں کے لیے ”بُرُوْکٌ“ ہوتا ہے، یعنی سینے کے بل گرنے والے یا اپنی جگہ سے نہ ہل سکنے والے۔ یعنی وہ اپنے گھٹنوں پر منہ کے بل گرے ہوئے تھے، ان میں کوئی حرکت باقی نہ رہی۔ (طنطاوی)
Top