Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 78
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آپکڑا الرَّجْفَةُ : زلزلہ فَاَصْبَحُوْا : تو رہ گئے فِيْ : میں دَارِهِمْ : اپنے گھر جٰثِمِيْنَ : اوندھے
پس لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے
عذاب الٰہی کے نشانات شروع ہوگئے اور تین دن کے اندر وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے : 89: اب ان کے عذاب کی مدت تین دن مقرر کردی گئی تو مفسرین کے بیان کے مطابق ثمود پر عذاب آنے کی علامات اگلی صبح ہی شروع ہوگئیں یعنی پہلے روز ان کے چہرے اس طرح زرد پڑگئے جیسا کہ خوف کی ابتدائی حالت میں ہوجایا کرتا ہے اور دوسرے روز سب کے چہرے سرخ ہوگئے گویا خوف و دہشت کا یہ دوسرا درجہ تھا اور تیسرے روز ان سب کے چہرے سیاہ تھے اور تاریکی چھائی ہوئی تھی یہ خوف و دہشت کا وہ تیسرا مقام ہے جس کے بعد موت ہی کا درجہ باقی رہ جاتا ہے تین دن کی ان علامات عذاب نے اگرچہ ان کے چہروں کو واقعی زرد و سرخ اور تاریک بنا دیا تھا لیکن اس سے ہی یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے دلوں کو صالح (علیہ السلام) کے سچے ہونے کا یقین تھا اور صرف حسد و بغض سے انکار کئے ہوئے تھے۔ اب جب کہ خدا کے حکم کے خلاف ” جرم “ کرچکے اور اس کی پاداش میں صالح (علیہ السلام) سے عذاب کی ہولناک خبر سنی تو ان پر خوف و دہشت کے وہ فطری رنگ اور نقوش نمایاں ہونے لگے جو موت کے یقین کے وقت خوف و دہشت سے مجرموں کے اندر پیدا ہوا کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ان متعین تین دن کے بعد وہ وقت موعود آپہنچا اور رات کے وقت ایک ہیبت ناک آواز نے ہر شخص کو اس حالت میں ہلاک کردیا جس حالت میں وہ تھا۔ قرآن کریم نے اس ہلاکت آفرین مقام کو کسی مقام پر ” صاعقہ “ (کڑک دار بجلی ) اور کسی جگہ ” رجف “ (زلزلہ ڈال دینی والی چیز ) اور کسی جگہ ” طاغیہ “ (دہشت ناک ) اور کسی جگہ ” صیحہ “ (سخت چیخ ) سے تعبیر کیا ہے اس لئے کہ یہ تمام تعبیرات ایک ہی حقیقت کے مختلف اوصاف کے اعتبار سے کی گئی ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے اس عذاب کی ہولناکیاں کیسی گوناں گوں تھیں۔ تم ایک ایسی کوندنے والی بجلی کا تصور کرو جو بار بار اضطراب کے ساتھ چمکتی ، کڑکتی اور گرجتی ہو اور اس طرح کوند رہی ہو کہ کبھی مشرق میں ہے تو کبھی مغرب میں اور جب ان تمام صفات کے ساتھ چمکتی ، کڑکتی ، گرجتی ، لرزتی لرزاتی ہوئی کسی مقام پر ایک ہولناک چیخ کے ساتھ گرے تو اس مقام اور اس کے نواح کا کیا حال ہوگا ؟ یہ ایک معمولی اندازہ ہے اس عذاب کا جو ثمود پر نازل ہوا اور ان پر ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کر کے سرکشوں کی سرکشی اور مغروروں کے غرور کا انجام ظاہر کرنے کے لئے آنے والی نسلوں کے سامنے بطور عبرت پیش کیا گیا۔ ایک طرف ثمود پر یہ عذاب نازل ہوا اور دوسری جانب صالح (علیہ السلام) اور ان کے پیرو مسلمانوں کو اللہ نے اپنی حفاظت میں لے لیا اور ان کو اس عذاب سے بالکل محفوظ رکھا کہ ان کو علاقہ بدر ہونے کا حکم صادر فرما دیا گیا اور اس طرح جو کچھ ہونا قانون الٰہی میں طے تھا وہ کر کے دکھا دیا گیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) حزن و ملال کے ساتھ ہلاک شدگان کو فطرت کے تقاضا کے مطابق مخاطب کرتے ہوئے کچھ فرمانے لگے۔
Top