Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 81
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَاْتُوْنَ : جاتے ہو الرِّجَالَ : مرد (جمع) شَهْوَةً : شہوت سے مِّنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) النِّسَآءِ : عورتیں بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ مُّسْرِفُوْنَ : حد سے گزر جانے والے
بیشک تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم لوگ حد سے گزر جانے والے ہو،
حضرت لوط (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو احکام پہنچانا اور قوم کا اپنے افعال سے باز نہ آنا اور انجام کے طور پر ہلاک ہونا ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بد کر داری کا اور تھوڑا سا اس سوال و جواب کا ذکر ہے جو حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان ہوا نیز جو ان پر عذاب آیا اس کا بھی ذکر ہے مفصل قصہ سورة ہود اور سورة حجر اور سورة شعراء اور سورة عنکبوت میں مذکورہ ہے اور تھوڑا تھوڑا دیگر مواقع میں بھی ہے۔ یہ لوگ ایمان بھی نہ لائے اور جن برے کاموں میں مبتلا تھے ان سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے روکا تو الٹے الٹے جواب دیتے رہے۔ یہاں سورة اعراف میں ان کی ایک بد کرداری کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وہ یہ کہ مرد، مردوں سے اپنی شہوت پوری کرتے تھے۔ سیدنا حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ یہ بےحیائی کا ایسا کام ہے جسے تم سے پہلے جہانوں میں کسی نے بھی نہیں کیا۔ اس بد کرداری اور بد فعلی کی تم نے بنیاد ڈالی ہے۔ یہ خالق ومالک کی شریعت کے خلاف ہے اور فطرت انسانی کے بھی۔ ان کی دوسری بد کر داری یہ تھی کہ راہزنی کرتے تھے جسے سورة عنکبوت میں (وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ سورة شعراء میں فرمایا (اَتَاْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُوْنَ ) (کیا تم سارے جہانوں میں سے مردوں کے پاس آتے ہو اور وہ جو اللہ نے تمہارے لیے پیدا کیا یعنی تمہاری بیویاں ان کو چھوڑتے ہو۔ بلکہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو) سیدنا حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو سمجھایا برے کام سے روکا لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور بےہودہ جواب دینے لگے۔ کہنے لگے کہ اجی ! ان لوگوں کو بستی سے نکال لو۔ یہ لوگ پاکباز بنتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ خود پاکباز بنتے ہیں اور ہمیں گندا بتاتے ہیں۔ گندوں میں پاکوں کا کیا کام ؟ یہ بات انہوں نے ازراہ تمسخر کہی تھی۔ سورة شعراء میں ہے (لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یَالُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ ) (ان لوگوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اے لوط ! اگر تو باز نہ آیا تو ضرور ان لوگوں میں سے ہوجائے گا جنہیں نکال دیا جاتا ہے) (قَالَ اِِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ ) (حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہارے اعمال سے بغض رکھنے والا ہوں) وہ لوگ اپنی بےہودگی اور بےحیائی پر اڑے رہے اور کمال بےہودگی اور ڈھٹائی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ اگر تو سچا ہے تو اللہ کا عذاب لے آ جیسا کہ سورة عنکبوت میں فرمایا۔ (فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا اءْتِنَا بِعَذَاب اللّٰہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) آخر ان پر عذاب آگیا اور انہیں منہ مانگی مراد مل گئی۔ سورة انعام میں فرمایا (وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَّطَرًا) اور سورة شعرا اور سورة نمل میں بھی ایسا ہی فرمایا یعنی ہم نے ان پر بڑی بارش برسادی اور سورة عنکبوت میں فرمایا۔ (اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰٓی اَھْلِ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ) (کہ ہم اس بستی والوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس سبب سے کہ وہ بد کاری کرتے تھے) یہ کیا عذاب تھا اور کیسی بارش تھی اس کے بارے میں سورة ہود میں فرمایا ہے۔ (فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ ) (سو جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے زمین کے اوپر والے حصے کو نیچے والا حصہ کردیا اور ہم نے اس زمین پر کنکر کے پتھروں کی بارش برسا دی جو لگا تار گر رہے تھے جو آپ کے رب کے پاس سے نشان لگے ہوئے تھے) سورة حجر میں بھی یہ مضمون ہے وہاں فرمایا ہے۔ (فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُشْرِقِیْنَ فَجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ) (سو پکڑ لیا ان کو چیخ نے سورج نکلتے نکلتے سو کردیا ہم نے اس کے اوپر والے حصہ کو نیچے والا حصہ اور برسا دیئے ہم نے ان پر کنکر کے پتھر) ان سب آیات کو ملانے سے معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر تینوں طرح کا عذاب آیا چیخ نے بھی پکڑا، ان کی سر زمین کا تختہ بھی الٹ دیا گیا، اور ان پر پتھر بھی برسا دیئے گئے ان بستیوں کو سورة برأت (ع 9) میں الْمُؤْتَفِکٰت سے تعبیر کیا ہے یعنی الٹی ہوئی بستیاں سورة ہود اور سورة ذاریات اور سورة عنکبوت میں ہے کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے فرشتے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے ان کی مہمانی کا انتظام کرنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا آپ حضرات کیوں بھیجے گئے۔ سورة ذاریات میں ہے۔ (قَالُوْا اِِنَّا اُرْسِلْنَا اِِلٰی قَوْمٍ مُجْرِمِیْنَ لِنُرْسِلَ عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَ فَاَخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیْھَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَبَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ) (انہوں نے جواب میں کہا کہ بلاشبہ ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ان پر مٹی کے پتھر برسائیں جن پر نشان لگے ہوئے ہیں تیرے رب کے پاس حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے، سو نکال دیا ہم نے جو ان میں ایمان والے تھے پس ہم نے اس میں ایک گھر کے سوا کوئی گھر مسلمانوں کا نہیں پایا) حضرت لوط (علیہ السلام) نے بہت محنت کی، حق کی طرف بلایا اور ایمان لانے کی دعوت دی لیکن قوم میں سے کوئی شخص بھی مسلمان نہ ہوا اور اپنی بیہودہ حرکتوں میں لگے رہے البتہ ان کے گھر کے لوگ مسلمان ہوگئے لیکن ان کی بیوی مسلمان نہ ہوئی تھی۔ مسلمان ہونے والی ان کی لڑکیاں تھیں اسی کو فرمایا کہ ایک گھر کے سوا کسی کو مسلمان نہ پایا۔ ان کی بیوی بھی چونکہ مسلمان نہ ہوئی تھی اسی لیے وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل کرلی گئی۔
Top