Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 81
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَاْتُوْنَ : جاتے ہو الرِّجَالَ : مرد (جمع) شَهْوَةً : شہوت سے مِّنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) النِّسَآءِ : عورتیں بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ مُّسْرِفُوْنَ : حد سے گزر جانے والے
تم عورتوں کو چھوڑ کر نفسانی خواہش سے مردوں پر مائل ہوتے ہو یقینا تم ایک ایسی قوم ہوگئے ہو جو بالکل چھوٹ ہے
لوط (علیہ السلام) نے قوم کو اس کی معروف بد اخلاقی سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی : 92: جس فعل شنیع سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو منع کیا قرآن کریم نے اس کو ” الْفَاحِشَةَ “ سے بیان کیا ہے اور ” الْفَاحِشَةَ “ کھلی ہوئی بدکاری اور بےحیائی کو کہتے ہیں اور استفہام یہاں اظہار نفرت وکراہت کے مفہوم میں ہے۔ اس فاحشہ کا یہاں نام نہیں لیا گیا جو اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ بےحیائی وقت کی سوسائٹی میں اس درجہ عام تھی کہ نام لئے بغیر ہی ہر شخص سمجھتا تھا کہ اس سے مراد کیا ہے ؟ اور گندی باتوں کے لئے اشارات ہی سے کام لیا جاتا ہے کیونکہ اصل میں بات کا سمجھانا ضروری ہوتا ہے جو اشارہ میں سمجھا دینے سے سمجھ آجائے اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ لوط (علیہ السلام) نے قوم کو در حقیقت دو مختلف پہلوئوں سے اس برائی پر اظہار نفرت فرمایا ہے۔ پہلے تو فرمایا کہ ایسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس کا بےحیائی ہونا ہر عقل سلیم پر واضح ہے پھر فرمایا کہ یہ حرکت شنیع تو تم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے پہلے کوئی شامت زدہ سوسائٹی ایسی نہیں گزری جس نے اس غلاظت کو تمہاری طرح اوڑھنا بچھونا بنایا ہو۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جن رسولوں کی دعوت کا ذکر ہوا ہے ان میں سے ہر ایک کی دعوت کا آغاز توحید سے ہوا لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) نے توحید کی دعوت سے آغاز کرنے کی بجائے سب سے پہلے قوم کی اس بےحیائی کو موضوع بحث بنایا۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط (علیہ السلام) کی قوم کے اندر شرک کی برائی موجود نہیں تھی ؟ اگر موجود تھی تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے کیوں اس کو نظر انداز فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ برائی اور برائی میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ایک برائی وہ ہوتی ہے جو خواہ کتنی ہی سنگین ہو لیکن وہ انسانی عوارض میں سے ہوتی ہے اور انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے یا پائی جاسکتی ہے دوسری برائی وہ ہے جس کا گھنائونا پن اس قدر واضح ہے کہ کسی انسان کے اندر عادت کی حیثیت سے اور کسی سوسائٹی کے اندر فیشن کی حیثیت سے اس کا پایا جانا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ اس انسان یا اس سوسائٹی کی فطرت بالکل مسخ ہوگئی ہے۔ جہاں اس طرح کے لوگوں سے سابقہ ہو وہاں اصل قابل توجہ چیز وہی برائی ہوتی ہے۔ دوسری باتیں خواہ کتنی ہی اہمیت رکھنے والی ہوں سب ثانوی درجے میں آجاتی ہیں۔ آپ ایک شخص کے پاس اصلاح کی غرض سے جائیں اور دیکھیں کہ وہ کھڑا ہوا غلیظ کھا رہا ہے تو آپ اس کو ایمان و اسلام کی تلقین کریں گے ؟ یا سب سے پہلے اس کی یہ عبرت انگیز حالت آپ کو متوجہ کرے گی ؟ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اس بات یا اس صورتحال سے سابقہ پڑا۔ ان کی قوم کے اندر کفر وشرک کی برائی بھی موجود تھی دوسری تمام برائیاں جو شرک و کفر کے لوازم میں سے ہیں موجود تھیں لیکن جس کی فطرت اتنی اوندھی ہوگئی ہو کہ مرد مردوں کو شہوت رانی کا عمل بنائے ہوئے ہوں ان کو تو سب سے پہلے اس غلاظت کی دلدل سے نکالنے کی ضرورت تھی۔ ان سے کوئی دوسری بات کرنے کا مرحلہ تو بہرحال اس کے بعد ہی آسکتا تھا۔ ان حالات میں حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ان کی بےحیائوں اور خباثتوں پر ملامت کی اور شرافت و طہارت کی زندگی کی رغبت دلائی اور حسن خطابت ، لطافت اور نرمی کے ساتھ جو ممکن طریقے سمجھانے کے ہو سکتے تھے ان کو سمجھایا اور موعظت و نصیحت کی لیکن ان بد بختوں پر اس کا ذرا اثر نہ ہوا اور ان الٹی سمجھ کے لوگوں نے جو جواب دیا وہ بھی الٹا ہی تھا۔
Top