Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 81
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَاْتُوْنَ : جاتے ہو الرِّجَالَ : مرد (جمع) شَهْوَةً : شہوت سے مِّنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) النِّسَآءِ : عورتیں بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ مُّسْرِفُوْنَ : حد سے گزر جانے والے
یعنی خوایش نفسانی کو پورا کرنے کیلئے عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں پر گرتے ہو۔ حقیت یہ کہ تم حد سے گزرنے والے ہو
آیت نمبر : 81 قولہ تعالیٰ آیت : انکم حضرت نافع اور حفص نے خبر کی بنا پر اسے ایک ہمزہ مک سورة کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور یہ مذکور فاحشہ کی تفسیر ہے، پس اس پر حرف استفہام داخل کرنا اچھا نہیں، کیونکہ یہ اپنے مابعد کو اپنے ماقبل سے قطع کردیتا ہے۔ لیکن باقیوں نے استفہام کی بنا پر اسے دو ہمزوں کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ استفہام تو بیخ (جھڑک) کے معنی میں ہے اور یہ حسین ہے، کیونکہ اس کا ماقبل اور مابعد مستقل کلام ہے۔ ابو عبید اور کسائی وغیرہ نے پہلے قول کو اختیار کیا ہے۔ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : آیت : افائم مت فھم الخلدون (الانبیائ) اس میں افھم نہیں فرمایا۔ اور مزید فرمایا : آیت : افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ( ال عمران : 144) اس میں انقلبتم نہیں فرمایا۔ اور یہ انتہائی قبیح غلطی ہے، کیونکہ ان دونوں نے دو چیزوں کوا یسی چیز کے ساتھ مشابہت دی ہے جس کے ساتھ وہ مشابہت نہیں رکھتیں، کیونکہ شرط اور جزا دونوں ایک شے کے قائم مقام ہیں جیسا کہ مبتدا اور خبر۔ لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ ان دونوں میں اسفہام ہو۔ پس یہ کہنا جائز نہیں : افان مت افھم جیسے یہ کہنا جائز نہیں ازید امنطلق۔ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے قصہ میں دو جملے ہیں، پس آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ ان میں سے ہر ایک کے بارے سوال کریں ( یعنی ہر ایک کے ساتھ حرف اسفہام لگائیں) یہ خلیل اور سیبویہ کا قول ہے اور اسے نحاس اور مکی وغیرہما نے اختیار کیا ہے۔ شھوۃ یہ مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہے، ای تشھونھم شھوتہ ( یعنی تم ان سے شہوت پرستی کرتے ہو) اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ حال کے محل میں مصدر ہو۔ آیت : بل انتم قوم مسرفون اسی کی مثل یہ آیت ہے آیت : بل انتم قوم عدون ( الشعرائ) اس برائی کے سبب تم شرک کی طرف جمع ہونے میں حس سے بڑھنے والے ہو۔
Top