Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 81
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَاْتُوْنَ : جاتے ہو الرِّجَالَ : مرد (جمع) شَهْوَةً : شہوت سے مِّنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) النِّسَآءِ : عورتیں بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ مُّسْرِفُوْنَ : حد سے گزر جانے والے
تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ بڑی ہی اوندھی عقل کے بلکہ حد سے گزر جانے والے لوگ ہو
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۔ یہ اظہار نفرت کا تیسرا پہلو ہے یعنی تم نے تو فطرت کو بالکل ہی الٹ کر رکھ دیا ہے۔ جملہ میں جو تاکید ہے وہ نفرت اور تعجب کی شدت کو ظاہر کر رہی ہے۔ ‘ رجال ‘ کا لفظ بھی یہاں معنی خیر زہے اس لیے کہ رجال پختہ سن و سال کے مردوں کو کہتے ہیں۔ اس لفظ کے استعمال سے ایک تو اس فعل کے گھنونے پن کا اظہار ہو رہا ہے۔ دوسرے اس سے دیوثیت کا اظہار ہورہا ہے جو کسی قوم میں اس مرض خبیث کے عام ہوجانے کی صورت میں لازماً پید اہوجاتی ہے۔ اس کے عام ہوجانے کی صورت میں سن و سال کی تمییز بالکل اٹھ جاتی ہے۔ پھر ہر عمر کے دیوث قوم میں پھیل جاتے ہیں اور ان کے لیے یہ لعنت عادت اور پیشہ بن جاتی ہے۔ من دون النساء کے الفاظ اس ققلب ماہیت کے ظاہر کر رہے ہیں جو اس فساد طبیعت کا لازمی نتیجہ ہے کہ ساری تخلیقی قوت بالکل غلط ہدف پر برباد ہوتی ہے۔ بنجر سیراب ہوتے ہیں، کھیتیاں خشک ہوجاتی ہیں جس کا انجام حرث و نسل کی تباہی اور آخرت کی روسیاہی ہے۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ، فطرت سے بغاوت کی تعبیر ہے اور فطرت سے بغاوت کا انجام ظاہر ہے۔
Top