Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 108
وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْهُ١ۚ وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَهُمْ : اور وہ يَنْهَوْنَ : روکتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَيَنْئَوْنَ : اور بھاگتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَاِنْ : اور نہیں يُّهْلِكُوْنَ : ہلاک کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَ : اور مَا يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور نہیں رکھتے
اور یہ اس سے (دوسروں کو) روکتے ہیں اور (خود بھی) اس سے الگ رہتے ہیں، اور یہ (لوگ کسی اور کو نہیں) اپنے ہی کو تباہ کررہے ہیں اور (اس کی بھی) خبر نہیں رکھتے،40 ۔
40 ۔ کیا ٹھکانا ہے ان کی حماقت وغباوت کا ! (آیت) ” وما یشعرون “۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ نفی شعور کا درجہ نفی علم سے بھی ہوا ہے۔ گویا ذرا سا بھی احساس نہیں رکھتے۔ حالانکہ احساس تو جانور تک رکھتے ہیں۔ ونفی الشعور عنھم باھلاکھم انفسھم ابلغ فی نفی العلم اذا البھائم تشعرو تحس (بحر) ونفی الشعور ابلغ من نفی العلم کانہ قیل وما یدرکون ذلک اصلا (روح) (آیت) ” وھم ینھون عنہ وینؤن عنہ “۔ یعنی قرآن مجید سے دوسروں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رکے رہتے ہیں۔ (آیت) ” عنہ “ کی ضمیر دونوں موقعوں پر قرآن کی جانب ہوگی۔ والضمیر علی قول قتادہ للقران (قرطبی) ھؤلاء المشرکون المکذبون بایات اللہ ینھون الناس عن اتباع محمد ﷺ والقبول منہ ویتباعدون عنہ (ابن جریر) الضمیرالمرفوع للمشرکین والمجرورللقران (روح) ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ” دوسروں کے ضرر کو رسول اللہ سے روکتے ہیں۔ قیل خاص یابی طالب ینھی الکفار عن اذایۃ محمد (علیہ السلام) ویتباعد من الایمان بہ (قرطبی) عن ابن عباس ؓ قال عطاء اومقاتل نزلت فی ابی طالب کان ینھی قریشا عن ایذاء النبی ﷺ ثم یتباعد عنہ ولا یتبعہ علی دینہ (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے اس تفسیر کی بنا پر فرمایا کہ اہل اللہ کے ساتھ حب طبعی اور نصرت قومی بدون حب عقلی کے نافع نہیں۔
Top