Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 26
وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْهُ١ۚ وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَهُمْ : اور وہ يَنْهَوْنَ : روکتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَيَنْئَوْنَ : اور بھاگتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَاِنْ : اور نہیں يُّهْلِكُوْنَ : ہلاک کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَ : اور مَا يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور نہیں رکھتے
وہ اس سے (اوروں کو بھی) روکتے ہیں اور خود بھی پرے رہتے ہیں۔ مگر (ان باتوں سے) اپنے آپ ہی کو ہلاک کرتے ہیں اور (اس سے) بیخبر ہیں
طبرانی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ابو طالب یوں تو ہر وقت حضرت کی حمایت کرتے رہتے تھے کہ قریش میں سے کوئی شخص آنحضرت کو ایذا نہ دیوے مگر آنحضرت جب ابو طالب کو کوئی بات ہدایت کی کہتے تو اس سے ابو طالب دور بھاگتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 2 ؎ طبرانی کی سند میں اگرچہ ایک راوی قیس بن ربیع کو بعض علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن شعبہ نے اس کو ثقہ کہا ہے 3 ؎ اس لئے یہ شان نزول کی روایت معتبر ہے بخاری میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت کے روبرو ابو طالب کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا شاید ابو طالب کو میری شفاعت کچھ نفع تخفیف عذاب پہنچادے 4 ؎۔ اسی طرح بخاری میں عروہ ؓ سے مرسل طور پر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عباس ؓ نے ابو لہب کو خواب میں دیکھا کہ بری حالت میں ہے جب حضرت عباس ؓ نے ابو لہب سے پوچھا تو ابو لہب نے کہا جب سے میں مرا ہوں ہمیشہ بری حالت میں رہتا ہوں لیکن پیر کے دن محمد ﷺ کی پیدائش کی خبر سن کر جو میں نے اسی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کردیا تھا اس لئے اس روز مجھ کو ذرا سی تکلیف سے کچھ راحت ہوجاتی ہے 5 ؎۔ علمائے اسلام کو اس شفاعت کی نسبت جس کا ذکر آپ نے ابو طالب کے حق میں فرمایا ہے اور تخفیف عذاب ابو لہب کی نسبت بڑی بحث ہے حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ آیت قرانی { فَمَا تَنْفَہُھُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ } (48/75) اور { لَا یَخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ } (162/2) سے کافروں کے حق میں نہ شفاعت ہوسکتی ہے نہ ان کا عذاب کچھ کم ہوسکتا ہے پھر یہ شفاعت اور تخفیف عذاب کسی معنی کی ہے حاصل جواب یہ ہے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ مشرک کی بخشش نہیں ہے اس کے سب عمل بیکار ہیں اس لئے نہ یہ شفاعت و خول جنت کی ہے نہ یہ تخفیف عذاب کسی عمل کی وجہ سے ہے بلکہ اپنی نبی کی عزت بڑھانے کی غرض سے یہ تخفیف عذاب کی شفاعت ابو طالب کے حق میں اور ایک روز کی تخفیف عذاب ابو لہب کے لئے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے محض اللہ کے فضل سے ہے اور یہ اللہ کا فضل کسی آیت قرآن کے مخالف نہیں ہے اور یہ خاص فضل اللہ کا ایسا ہی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ بغیر کسی عمل کے بہت سی مخلوق کو محض اپنے فضل سے جنت میں داخل کردے گا چناچہ اس کی تصریح ابو سعید خدری ؓ کی متفق علیہ روایت میں ہے 1 ؎ آخر کو فرمایا کہ ایسی باتوں سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ ایسی باتوں کا خمیازہ خود ان ہی لوگوں کو قیامت کے دن بھگتنا پڑے گا۔ لیکن یہ ان کی نادانی ہے کہ یہ لوگ عقبیٰ کے اپنے بھلے برے کو نہیں سمجھتے اور اتنا نہیں جانتے کہ دنیا میں یہ لوگ جو کام کرتے ہیں اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ اپنے دل میں سوچ لیتے ہیں اسی سے ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا کرنے میں اتنا بڑا کام بغیر نتیجہ کے نہیں کیا ہے بلکہ اس کا نتیجہ وہی ہے جو گھڑی گھڑی ان لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ اس جہان کے بعد دوسرا جہان اور قائم ہوگا جس میں دنیا کی نیکی بدی کی جزا سزا کا فیصلہ ہوگا پھر باوجود گھڑی گھڑی سمجھانے کے ایسے ظاہری نتیجہ کو جھٹلانا اور اس سے غافل رہنا بڑی نادانی ہے۔ معتبر سند کی شداد بن اوس ؓ کی حدیث ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے گذرچ کی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقل مند وہ شخص ہے جو موت سے پہلے عقبیٰ کا کچھ سامان کرلیوے اور نادان وہ ہے جو عمر بھر عقبیٰ سے غافل رہے اور پھر عقبیٰ میں راحت کی توقع رکھے 2 ؎۔ قریش کی نادانی کا ذکر جو آیت میں ہے اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔
Top