Tafseer-Ibne-Abbas - Al-An'aam : 26
وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْهُ١ۚ وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَهُمْ : اور وہ يَنْهَوْنَ : روکتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَيَنْئَوْنَ : اور بھاگتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَاِنْ : اور نہیں يُّهْلِكُوْنَ : ہلاک کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَ : اور مَا يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور نہیں رکھتے
وہ اس سے (اوروں کو بھی) روکتے ہیں اور خود بھی پرے رہتے ہیں۔ مگر (ان باتوں سے) اپنے آپ ہی کو ہلاک کرتے ہیں اور (اس سے) بیخبر ہیں
(26۔ 27) حارث بن عامر نے آپ سے دلائل نبوت کا مطابلہ کیا، اس پر فرمان الہی نازل ہوا کہ اگر یہ لوگ تمام دلائل کو بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور یہ جب آپ کے پاس آتے ہیں تو قرآن کے نازل ہونے کے بارے میں پوچھتے ہیں اور جب انکو اس کی اطلاع کردی جاتی ہے تو خصوصا نضر بن حارث کہتا ہے کہ محمد ﷺ جو کچھ بیان کرتے ہیں یہ تو بس گزرے ہوئے لوگوں کے کچھ جھوٹے افسانے ہیں اور ابوجہل اور اس کے ساتھی رسول اکرم ﷺ اور قرآن کریم سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رکتے اور دور رہتے ہیں اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ ابوطالب لوگوں کو رسول اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچانے سے روکتے ہیں مگر خود آپ کی پیروی نہیں کرتے مگر یہ خود ہلاک ہورہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جن لوگوں کو آپ کی اطاعت سے روکتے ہیں، ان سب کا گناہ ان پر ہے، اور اگر محمد ﷺ آپ ان کو اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے ہوں گے تو دنیا میں واپسی اور آسمانی کتابوں اور رسول کی تکفیر نہ کرنے کی تمنا کریں گے اور ہر ایک طریقہ سے ایمان والوں کے ساتھ ہونے کی تمنا کریں گے۔ شان نزول : (آیت) ”وھم ینھون عنہ“۔ (الخ) امام حاکم ؒ وغیرہ نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ مشرکین کو رسول اکرم ﷺ کو ایذا پہنچانے سے روکتے تھے اور خود آپ کے دین کو قبول نہیں کرتے تھے اور ابن ابی حاتم ؒ نے سعید بن ابی ہلال سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت رسول اکرم ﷺ کے چچاؤں کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ تعداد میں دس تھے علانیہ طور پر تو وہ آپ کی مدد میں لوگوں پر بھاری تھے مگر خفیہ طور پر تمام لوگوں سے آپ پر زیادہ سخت تھے۔
Top