Anwar-ul-Bayan - Hud : 12
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآئِقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌؕ
فَلَعَلَّكَ : تو شاید (کیا) تم تَارِكٌ : چھوڑ دو گے بَعْضَ : کچھ حصہ مَا : جو يُوْحٰٓى : کیا گیا اِلَيْكَ : تیری طرف وَضَآئِقٌ : اور تنگ ہوگا بِهٖ : اس سے صَدْرُكَ : تیرا سینہ (دل) اَنْ يَّقُوْلُوْا : کہ وہ کہتے ہیں لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اترا عَلَيْهِ : اس پر كَنْزٌ : خزانہ اَوْ : یا جَآءَ : آیا مَعَهٗ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : فرشتہ اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : کہ تم نَذِيْرٌ : ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّكِيْلٌ : اختیار رکھنے والا
شاید تم کچھ چیز وحی میں سے جو تمہارے پاس آتی ہے چھوڑ دو ۔ اس (خیال) سے تمہارا دل تنگ ہو کہ (کافر) یہ کہنے لگیں کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا ؟ یا اس کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ (اے محمد) تم تو صرف نصیحت کرنیوالے ہو اور خدا ہر چیز کا نگہبان ہے۔
(11:12) لعلک۔ لعل اور ک پر مشتمل ہے۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر ہے اور لعل حرف مشابہ بفعل ہے۔ حرف عامل ہے اسم کو نصب دیتا ہے اور خبر کو رفع۔ ان یا ان۔ کان لیت لکن لعل۔ ناصب اسم اندرافع درخبر ضدما ولا۔ امید و خوف پر دلالت کرنے کیلئے آتا ہے۔ (1) امید کا رجوع کبھی متکلم کی طرف ہوتا ہے ۔ جیسے لعلنا نتبع السحرۃ (26:40) فرعون کی قوم والوں نے کہا ” ہم کو امید ہے کہ (اگر وہ جیت گئے تو) ہم جادوگروں کی پیروی کریں گے “۔ یہاں امید کا رجوع خود یہ کلام کرنے والوں کی طرف تھا۔ (2) کبھی مخاطب کو امید دلانے اور امیدوار رکھنے کے لئے آتا ہے اس وقت امید کا رجوع مخاطب کی طرف آتا ہے کیونکہ امید و بیم کی کیفیت مخاطب کے دل سے متعلق ہے مثلاً لعلہ یتذکراویخشی (20:42) شاید وہ غور کرلے یا ڈرجائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاؤ اس سے کہو کہ ہم اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ امید لے کر جاؤ کہ ” شاید و ہ غور کرے یا ڈر جائے “۔ یہاں امید دلانے کا تعلق حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) سے ہے۔ (3) کبھی امدی کا تعلق نہ متکلم سے ہوتا ہے اور نہ مخاطب سے بلکہ کسی تیسرے شخص غائب سے ہوتا ہے۔ جیسے فلعلک تارک بعض ما یوحی الیک (آیۃ ہذا 11:12) اگر تمہارے متعلق یہ گمان کرتے ہیں کہ مد شاید تم کچھ چیز وحی میں سے جو تمہارے پاس آتی ہے چھوڑ دو ۔ یہاں یہ امید کی کیفیت لوگوں کے دلوں میں ہے لعل حرف مشبہ بفعل ہے اور ہ۔ ک۔ نا۔ ہم اس کا اسم۔ لعل۔ کا حرف جب اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطعیت آجاتی ہے۔ اس بناء پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی لینا صحیح نہیں ہے۔ لعل طمع اور اشفاق (ڈرتے ہوئے چاہیے) امید اور خوف۔ بیم ورجاء کے معنی ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لعلہ۔ شاید وہ۔ لعلک۔ شاید تم۔ لعلنا شاید ہم وغیرہ۔ وضائق بہ۔ ضائق تنگ ہونے والا۔ ضیق سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ۔ الضیق کے معنی تنگی کے ہیں۔ یہ سعۃ کی ضد ہے وضائق بہ صدرک اس خیال سے تمہارا دل تنگ ہو۔ اس کا عطف تارک پر ہے۔ وکیل۔ نگہبان۔ نگران۔
Top