Tadabbur-e-Quran - Hud : 12
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآئِقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌؕ
فَلَعَلَّكَ : تو شاید (کیا) تم تَارِكٌ : چھوڑ دو گے بَعْضَ : کچھ حصہ مَا : جو يُوْحٰٓى : کیا گیا اِلَيْكَ : تیری طرف وَضَآئِقٌ : اور تنگ ہوگا بِهٖ : اس سے صَدْرُكَ : تیرا سینہ (دل) اَنْ يَّقُوْلُوْا : کہ وہ کہتے ہیں لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اترا عَلَيْهِ : اس پر كَنْزٌ : خزانہ اَوْ : یا جَآءَ : آیا مَعَهٗ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : فرشتہ اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : کہ تم نَذِيْرٌ : ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّكِيْلٌ : اختیار رکھنے والا
شاید اس چیز کا کچھ حصہ تم چھوڑ دینے والے ہو جو تم پر وحی کی جا رہی ہے اور اس سے تمہارا سینہ بھنچ رہا ہے کہ وہ کہیں گے کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ تو تم بس ایک ہوشیار کردینے والے ہو اور ہر چیز اللہ کے حوالہ ہے
پیغمبر ﷺ کو تسلی : فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَضَاۗىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ يَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ جَاۗءَ مَعَهٗ مَلَكٌ ۭ اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِيْرٌ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۔ یہ آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی ہے کہ تم ان لوگوں کے رویے سے برداشتہ خاطر ہو کر اپنے فرض کی ادائیگی میں ذرا ڈھیلے نہ پڑنا۔ اگر یہ تمہیں خدا کا رسول ماننے کے لیے یہ شرط ٹھہراتے ہیں کہ تمہارے پاس بہت بڑا خزانہ ہو یا تمہارے ساتھ کوئی فرشتہ تمہاری رسالت کی گواہی دیتا پھرے تو اس قسم کے احمقانہ طالبات تمہارے لیے وجہ پریشانی نہ ہوں۔ تم صرف ان کے لیے نذیر بنا کر بھیجے گئے ہو، ان پر داروغہ مقرر کر کے نہیں بھیجے گئے ہو کہ لازماً ان کو تم ہدایت کے راستہ پر کر ہی دو۔ انذار کا فرض ادا کردینے کے بعد تمہاری ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اگر لاطائل مطالبات کو بہانہ بنا کر یہ لوگ حقیقت سے گریز کرنا چاہتے ہیں تو معاملہ اللہ کے حوالے کرو۔ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ تمہاری جانفشانیاں بھی اس کے سامنے ہیں اور ان کی شرارتیں بھی۔ وہ ان کو جس چیز کا مستحق پائے گا وہی ان کے ساتھ کرے گا اور جب کرے گا تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ بن سکے گا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اس قسم کی ہدایات آنحجرت ﷺ کو دینے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ وحی الٰہی کے کسی حصہ کی تبلیغ سے ہچکچا رہے تھے یا اس کو چھوڑ دینا چاہتے تھے بلکہ یہ حالات کی شدت اور ان کے سبب سے آپ کی پریشانی کے پیش نظر آپ کو اپنے موقف پر استقامت کی تلقین اور اپنی ذمہ داری کو اس کے حدود ہی ہی تک محدود رکھنے کی ہدایت ہے۔ اس قسم کے مواقع میں خطاب میں جو ذرا تیزی ہوتی ہے اس کا رخ، جیسا کہ ہم بار بار ظاہر کرچکے ہیں، اصلاً پیغمبر کی طرف نہیں ہوتا بلکہ ان معاندین کی طرف ہوتا ہے جن کا عناد اس ہدایت کا موجب ہوتا ہے۔
Top