Baseerat-e-Quran - Hud : 12
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآئِقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌؕ
فَلَعَلَّكَ : تو شاید (کیا) تم تَارِكٌ : چھوڑ دو گے بَعْضَ : کچھ حصہ مَا : جو يُوْحٰٓى : کیا گیا اِلَيْكَ : تیری طرف وَضَآئِقٌ : اور تنگ ہوگا بِهٖ : اس سے صَدْرُكَ : تیرا سینہ (دل) اَنْ يَّقُوْلُوْا : کہ وہ کہتے ہیں لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اترا عَلَيْهِ : اس پر كَنْزٌ : خزانہ اَوْ : یا جَآءَ : آیا مَعَهٗ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : فرشتہ اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : کہ تم نَذِيْرٌ : ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّكِيْلٌ : اختیار رکھنے والا
پھر شاید کہ آپ ﷺ بعض وہ احکامات جو آپ کی طرف نازل کئے گئے ہیں چھوڑنے کی طرف مائل ہوجائیں یا آپ ﷺ کا دل اس بات سے تنگ ہونے لگے کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا یا کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ (اے نبی ﷺ آپ نذیر ہیں یعنی برے انجام سے ڈرانے والے اور اللہ ہر چیز پر اختیار رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 12 تا 14 لعلک (شاید کہ آپ) تارک (چھوڑنے والا) ضائق (تنگ ہونے والا) کنز (خزانہ) ملک (فرشتہ) عشر سور (دس سورتیں) مفتریت (گھڑی گئیں) استطعتم (تم میں طاقت ہو، استطاعت ہو) لم یستجیبوا (انہوں نے جواب نہ دیا) اعلموا (تم جان لو) مسلمون (فرماں بردار، گردن جھکانے والے ) تشریح : آیت نمبر 12 تا 14 نبی کریم ﷺ کو اللہ نے اس لئے مبعوث فرمایا تھا تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو اس صراط مستقیم کی طرف دعوت دیں جن میں ان کی حقیقی کامیابی اور بھلائی ہے۔ جب آپ اللہ کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش فرماتے تو کفار و مشرکین چاروں سے آپ کو عاجز و بےبس کرنے کے لئے طرح طرح کے اعتراضات کرتے تاکہ نبی کریم ﷺ یا تو اس پیغام کو پہنچانا چھوڑ دیں یا کم از کم اس میں نرمی کا رویہ اختیار فرمائیں جس میں ان کی بت پرست اور جاہلانہ رسموں پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اللہ کی طرف سے بد اعمالیوں اور کفر و شرک میں مبتلا لوگوں کو ان کے برے انجام اور نیک راہوں پر چلنے والوں کے لئے آخرت کی تمام بھلائیوں کی خوش خبری دینے والے بنا کر (بشیر و نذیر) بھیجے گئے ہیں۔ آپ اپنے فرض منصبی کو پورا کیجیے اور اللہ کے دین اور اصولوں میں کسی طرح کی نرمی اختیار نہ کیجیے۔ کفار و مشرکین آپ کو جھٹلانے ، طعنے دینے، مذاق اڑانے اور ہر طرح پریشان کرنے اور بہت سے فضول مطالبات سے رنجیدہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے۔ کبھی وہ کہتے۔ 1) ہم اسلامی تعلیمات کو اس لئے نہیں مانتے کہ اس میں ہمارے بتوں اور رسموں کو برا کہا گیا ہے۔ 2) فرمائش کرتے کہ یا تو کوئی دوسرا قرآن لے آئیں یا اس میں ایسی ترمیم کردیں جس میں ہمارے بتوں اور رسموں کو برا نہ کہا گیا ہو۔ 3) کبھی کہتے کہ ہم اس بات کا کیسے یقین کرلیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا جو ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتا تو ہم یقین کرلیتے۔ 4) کبھی کہتے کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ کے پاس مال و دولت کے خزانے کیوں نہیں ہیں اگر آپ احد کے پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بنا کردیں تو ہم یقین کرلیں گے۔ غرضیکہ یہ اور اسی طرح کے بہت سے طعنے دیتے تاکہ نبی کریم ﷺ عاجز و بےبس ہو کر رہ جائیں اور آپ کو اتنا ستایا جائے اور پریشان کیا جائے کہ آخر کار آپ دین کے اصولوں میں نرمی اختیار فرما لیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کفار عرب کو ایک دفعہ پھر یہ بتا دیا ہے کہ یہ قرآن اور اس کی تعلیمات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے خود سے نہیں گھڑ لیں کہ لوگوں کے دبائو میں آ کر پہلے کہی گئی باتوں کو چھوڑ کر دین کیا صولوں میں ترمیم کردیں بلکہ یہ اس کا کلام ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ ہر ایک کو ہدایت دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی کی ذمہ داری ہے۔ انبیاء کرام کا کام حق و صداقت کی راہوں کو کھول کر پیش کرنا ہے تاکہ ہر شخص کے سامنے ہر اچھے اور برے کام کا انجام آجائے ۔ آگے اس کا اپنا فصلہ ہے کہ وہ کس راستے کو اختیار کرتا ہے۔ اگر کوئی جنت کا راستہ چھوڑ کر جہنم اور بد نصیبی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ اسی فیصلے پر اس کا انجام ہوگا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان کو کہئے دیجیے اللہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ رہی یہ بات کو قرآن کریم کو نعوذ باللہ آپ نے گھڑ لیا ہے تو فرمایا کہ ان سے کہہ دیجیے کہ تم بھی اہل زبان ہو بلکہ تمہیں تو اپنی زبان دانی پر اتنا گھمنڈ ہے کہ اپنے مقابلے میں دوسروں کو گونگا کہتے ہو۔ فرمایا کہ اس قرآن کے سامنے سب عاجز و بےبس ہو کر کیوں رہ گئے ہو ؟ فرمایا کہ قرآن تو ایک عظیم اور بہت بڑی کتاب ہے تم اور تمہارے سارے مددگار مل کر قرآن جیسی دس سورتیں بنا کر کیوں نہیں لے آتے۔ اگر تم ایک سورت بھی بنا کر نہیں لاسکتے تو ان احمقانہ اور جاہلانہ باتوں میں پھنس کر اپنی آخرت کو کیوں تباہ کر رہے ہو۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اگر یہ لوگ اللہ کے اس کھلے چیلنج کو قبول نہیں کرتے اور اس کا جواب نہیں دیتے تو پھر یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے پورے علم کے ساتھ نازل فرمایا ہے اور وہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے قابل نہیں ہے۔ ان کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اللہ و رسول کے سامنے اپنی گردن جھکا دیں اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کا طریقہ اختیار کریں۔
Top