Siraj-ul-Bayan - Hud : 12
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآئِقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌؕ
فَلَعَلَّكَ : تو شاید (کیا) تم تَارِكٌ : چھوڑ دو گے بَعْضَ : کچھ حصہ مَا : جو يُوْحٰٓى : کیا گیا اِلَيْكَ : تیری طرف وَضَآئِقٌ : اور تنگ ہوگا بِهٖ : اس سے صَدْرُكَ : تیرا سینہ (دل) اَنْ يَّقُوْلُوْا : کہ وہ کہتے ہیں لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اترا عَلَيْهِ : اس پر كَنْزٌ : خزانہ اَوْ : یا جَآءَ : آیا مَعَهٗ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : فرشتہ اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : کہ تم نَذِيْرٌ : ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّكِيْلٌ : اختیار رکھنے والا
سو (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں تو وحی کی باتیں جو تجھ پر نازل ہوئیں چھوڑ بیٹھے گا ، اور تیرا دل اس سے تنگ ہوجائیگا ، (اس خیال سے) کہ وہ کہتے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نہ نازل ہوا ، یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا تو تو ڈرسنانے والا ہے ‘ اور اللہ ہر شے پر وکیل ہے (ف 1) ۔
خزائن رحمت کی فراوانی : (ف 1) حضور ﷺ شفقت و رحمت کے پیکر تھے ، تمام تکالیف جو دعوت تبلیغ کی پیش آتیں ، بخندہ پیشانی برداشت کرتے ، قوم کی مخالفت کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرتے ، گالیوں ، اور طعنوں اور الزاموں کو سنتے اور صبر کرتے ، دن رات قوم کی اصلاح کے درپے رہتے مگر جب کھلا اور واضح عنا د کی واشگاف دشمنی دیکھتے ، تو پھر فطرتا آپ کو تکلیف محسوس ہوتی ، اور اس وقت آپ باوجود تحمل و برداشت کے گھبرا اٹھتے ، کیونکہ قوم جب تک بےعلم رہے جاہل اور ناآشنا ہو ، مرشد کامل کا فرض ہے کہ اسے سمجھائے مگر جب جان بوجھ کر بار بار مخالفت وعداوت کی جائے اس وقت ایک مخلص رہنما کو طبعا دکھ ہوتا ہے ، اور یہ دیکھ نتیجہ ہوتا ہے ، انتہائی خلوص وہمدردی کا رسول اللہ ﷺ جو رحمۃ العالمین ہیں کبھی کبھی ان لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے بےچین ہوجاتے ، اور بالخصوص جب کہ وہ اس قسم کے طعنے سنتے کہ یہ کیسا رسول ہے جس کے پاس مال و دولت کے خزائن نہیں ، جو نہ خود فرشتہ ہے اور نہ جس کے پاس فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، آپ زیادہ اذیت محسوس کرتے ، کیونکہ اس مطالبہ میں ہدایت وسعادت کا کوئی جذبہ نہیں جو کار فرما ہو ، مقصد محض حضور ﷺ کو ستانا اور چھیڑنا ہے ، ورنہ کون نہیں جانتا آپ کے پاس ہر وقت برکات وفیوض کے خزائن رہتے اور فرشتے آپ کے جلو میں ہوتے ، حضور ﷺ کے پاس دولت ایمان کی اس قدر فراوانی تھی کہ دس ہزار عالم سیر ہوجائے اور وہ ختم نہ ہوتی ، بزرگی و حشمت کے اس درجہ آپ مالک تھے کہ فرشتے آپ کے حضور میں آنا وجہ افتخار سمجھیں ۔
Top