Anwar-ul-Bayan - Maryam : 39
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ١ۘ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَنْذِرْهُمْ : اور ان کو ڈراویں آپ يَوْمَ الْحَسْرَةِ : حسرت کا دن اِذْ : جب قُضِيَ : فیصلہ کردیاجائیگا الْاَمْرُ : کام وَهُمْ : لیکن وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں ہیں وَّهُمْ : اور وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
اور ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ جب بات فیصل کردی جائے گی اور (ہیہات) وہ غفلت میں (پڑے ہوئے ہیں) اور ایمان نہیں لاتے
(19:39) یوم الحسرۃ۔ ای یوم القیامۃ۔ الحسرۃ مصدر ہے جس کے معنی ہیں غم۔ یا جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا۔ الحسر۔ (نصر۔ ضرب) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور اس سے پردہ اٹھانے کے ہیں۔ جیسے حسرت عن الذراع میں نے آستین چڑھائی۔ اسی سے حسیر بمعنی حاسرتھ کی ہوئی۔ درماندہ۔ اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے اپنے قوی کو ننگا کردیا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے ینقلب الیک البصر وھو حسیر۔ (67:4) نظر (ہر بار) تیری طرف نکام اور تھک کر لوٹ آئے گی۔ انذرہم۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ ہم۔ ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ تو ان کو ڈرا ۔ اذ قضی الامر۔ جب ہر بات کا اخیر فیصلہ کردیا جائے گا۔ یعنی جب جنت اور دوزخ دونوں کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ اہل جنت اور اہل دوزخ کو خلود کا حکم سنا کر موت کو ان کے سامنے ذبح کردیا جائے گا۔ اذ یا تو یوم کا بدل ہے یا الحسرۃ سے متعلق ہے۔ اور اس کا ظرف ہے۔ وہم فی غفلۃ وہم لا یؤمنون۔ یہ دونوں جملے یا تو انذرہم کے حال ہیں یعنی آپ انہیں ڈرائیے جب کہ ان کی حالت یہ ہے کہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لا رہے۔ یا ان دونوں جملوں کا عطف فی ضلال مبین پر ہے اور انذرہم۔۔ الامر جملہ معترضہ ہے۔
Top