Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم (پیروان محمد سے) تو ہنسی کیا کرتے ہیں
(2:14) لقوا : ماضی جمع مذکر غائب ، لقی ولقاء (باب سمع) مصدر، لقوا اصل میں لقیوا تھا۔ ی پر ضمہ دشوار تھا۔ ماقبل کو دیا۔ ی بسبب اجتماع ساکنین گرگئی۔ لقوا ہوگیا۔ جب وہ ملتے ہیں، جب وہ سامنے آتے ہیں ۔ لقوا ماضی کا صیغہ ہے۔ لیکن حرف شرط کے بعد آنے کی وجہ سے بمعنی مضارع آیا ہے۔ ملاحظہ ہو (2:11) ۔ الذین : اسم موصول ۔ امنوا صلہ موصول اپنے صلہ سے مل کر لقوا کا مفعول ہے۔ خلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ (ماضی بمعنی مضارع بحوالہ (2:11) خلا یخل (باب نصر) خلاء مصدر وہ تنہا ہوا۔ وہ اکیلا ہوا۔ خلاء خلوت میں ہونا یا اکیلا ہونا۔ خلا الی۔ کسی کے ساتھ اکیلا ہونا۔ یا خلوت میں ہونا واذا خلوا الیٰ شیاطینھم ۔ اور جب وہ اپنے شیطان ساتھیوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں، یعنی جب اہل ایمان ان کے پاس نہیں ہوتے۔ مستھزء ون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ استھزاء (استفعال) مصدر ، ھزئ۔ مادہ ۔ مذاق کرنے والے، ٹھٹھا کرنے والے۔ مذاق بنا کر انکار کرنے والے۔
Top