Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 81
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ١ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْ١ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا١ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا اللّٰهُ : اللہ مِيْثَاقَ : عہد النَّبِيّٖنَ : نبی (جمع) لَمَآ : جو کچھ اٰتَيْتُكُمْ : میں تمہیں دوں مِّنْ : سے كِتٰبٍ : کتاب وَّحِكْمَةٍ : اور حکمت ثُمَّ : پھر جَآءَ : آئے كُمْ : تم رَسُوْلٌ : رسول مُّصَدِّقٌ : تصدیق کرتا ہوا لِّمَا : جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس لَتُؤْمِنُنَّ : تم ضرور ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر وَ : اور لَتَنْصُرُنَّهٗ : تم ضرور مدد کرو گے اس کی قَالَ : اس نے فرمایا ءَ : کیا اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَخَذْتُمْ : اور تم نے قبول کیا عَلٰي : پر ذٰلِكُمْ : اس اِصْرِيْ : میرا عہد قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَقْرَرْنَا : ہم نے اقرار کیا قَالَ : اس نے فرمایا فَاشْهَدُوْا : پس تم گواہ رہو وَاَنَا : اور میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اسکی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھیرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد و پیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں
(3:81) اس آیۃ میں میثاق النبیین کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ نبیوں کے بارے میں میثاق لیا گیا۔ دوسرا وہ میثاق جو نبیوں سے لیا گیا تھا۔ بعض مفسرین نے پہلا مطلب اختیار کیا ہے اور ان میں حضرت شاہ ولی اللہ (رح) بھی ہیں اور بعضوں نے دوسرا مطلب اختیار کیا ہے۔ لیکن پہلا مطلب زیادہ قرین قیاس ہے۔ دوسرے مطلب کی صورت میں ماحاصل یہ ہوگا کہ اللہ نے نبیوں میں سے ہر ایک نبی سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر کوئی دوسرا رسول اس کے عہد میں مبعوث ہو تو اس کا فرض ہے کہ اس کی تصدیق کرے۔ اور اس کا ساتھ دے۔ تاریخ میں کب اور کہاں ایسے حالات معرض وجود میں آئے کہ ایک امت کی جانب ایک رسول کتاب و حکمت لے کر آیا ہو اور اس کی حیات ہی میں ایک دوسرا رسول کتاب و حکمت کے ساتھ مبعوث ہوا ہو۔ اگر کبھی دو نبی ایک ہی وقت میں ایک ہی امت کی طرف بھیجے گئے تو دوسرا محض پہلے کی تائید اور نصرت کی خاطر مبعوث ہوا۔ اور جہاں تک اس آیت سے یہ مطلب اخذ کرنے کا سوال ہے کہ اس سے مراد تمام انبیاء سے رسول اکرم ﷺ کی رسالت کی پیروی کا اقرار لیا گیا تھا تو امام رازی نے اس بارے میں ایک بہت معقول سوال اٹھایا ہے کہ رسول مقبول کی بعثت کے وقت تمام انبیاء فوت ہوچکے تھے وہ کیسے ایسے وثاق کے مکلف ہوسکتے تھے۔ لہٰذا جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) کا موقف ہے وہ درست ہے کہ یہ میثاق ہر امت سے لیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک کو بذریعہ رسول کتاب و حکمت دی گئی ہے لیکن جب کبھی اس کے بعد کوئی اور رسول منجانب اللہ کتاب و حکمت لے کر آئے جو پہلی کی تصدیق و تائید میں ہو تو اس وقت کی امت پر فرض ہوگا کہ نئے آنے والے رسول کی پیروی کرے اور اس کے ساتھ تعاون کرے کیونکہ اصل دین ایک ہی ہے اور جتنے بھی خدا کے رسول ہیں سب اسی کی دعوت دینے والے ہیں۔ واذ اخذ اللہ میثاق النبیین۔ اور یاد کرو جب ہم نے نبیوں کے بارے میں عہد لیا تھا۔ لتؤمنن بہ ولتنصرنہ۔ ہر دو فعل مضارع معروف بالام تاکید ونون ثقلیہ ہیں۔ تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا۔ اصری میرا عہد۔ چونکہ عہد کی ذمہ داری کا بھی انسا پر بوجھ ہوتا ہے اسلئے اصر کا استعمال عہد کے معنی میں بھی ہوتا ہے جمع اصار
Top