Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 81
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ١ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْ١ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا١ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا اللّٰهُ : اللہ مِيْثَاقَ : عہد النَّبِيّٖنَ : نبی (جمع) لَمَآ : جو کچھ اٰتَيْتُكُمْ : میں تمہیں دوں مِّنْ : سے كِتٰبٍ : کتاب وَّحِكْمَةٍ : اور حکمت ثُمَّ : پھر جَآءَ : آئے كُمْ : تم رَسُوْلٌ : رسول مُّصَدِّقٌ : تصدیق کرتا ہوا لِّمَا : جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس لَتُؤْمِنُنَّ : تم ضرور ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر وَ : اور لَتَنْصُرُنَّهٗ : تم ضرور مدد کرو گے اس کی قَالَ : اس نے فرمایا ءَ : کیا اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَخَذْتُمْ : اور تم نے قبول کیا عَلٰي : پر ذٰلِكُمْ : اس اِصْرِيْ : میرا عہد قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَقْرَرْنَا : ہم نے اقرار کیا قَالَ : اس نے فرمایا فَاشْهَدُوْا : پس تم گواہ رہو وَاَنَا : اور میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور اس وقت کو دھیان میں لآ جب اللہ نے نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ جب میں نے تم کو کتاب اور حکمت دی۔ پھر آیا تمہارے پاس رسول تصدیق کرنے والا اس کی جو تمہارے پاس ہے ، البتہ ضرور اس پر ایمان لآ گے اور البتہ ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ فرمایا اللہ نے ، کیا اقرار کیا تم نے ، اور لیا تم نے اس بات پر میرا پختہ عہد۔ انہوں نے کہا۔ ہم نے اقرار کیا۔ اللہ نے فرمایا ، گواہ ہوجآ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی دینے والوں میں ہوں۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ جب حضور ﷺ وفد نجران کو بحث میں لاجواب کر رہے تھے ، تو ایک یہودی نے کہا ، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کی پرستش شروع کریں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ جس انسان کو نبوت سے سرفراز فرمائے ، اس کی یہ شان نہیں ہے۔ کہ وہ اللہ کی بجائے لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف بلائے یہ اٹل بات ہے کہ نبی ہمیشہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ وہ تو کہتا ہے۔ کہ اللہ والے ہوجآ ۔ وہ ملائکہ یا انبیاء کی عبادت کا حکم نہیں دیتا۔ اس معاملہ میں انبیاء کی بریت واضح کرنے کے بعد آمدہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے میثاق النبیین کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یعنی اس عہد کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت سے لیا تھا کہ جب تمہارے پاس اللہ کا رسول آجائے۔ جو تمہارے پاس موجود چیز کی تصدیق کرے ، تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔ میثاق الست : قرآن پاک میں مختلف میثاقوں کا ذکر ہے۔ منجملہ ان کے میثاق الست ہے یہ وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان سے لیا تھا۔ اس کا ذکر سورة اعراف میں موجود ہے۔ واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتہم واشھدھم علی انفسہم۔ الست بربکم۔ قالو بلی۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا ہونے والی نسل آدم کو عالم ارواح میں متمثل فرما کر ان سب سے سوال کیا تھا " کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں " گویا یہ عہد اللہ نے اپنی الوہیت اور ربوبیت کے اقرار کے لیے اس دنیا میں آنے سے پہلے لیا تھا۔ پھر جوں جوں نبی آدم کو پیدا فرمایا اس عہد کی یاد دہانی کے لیے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ اور کتابیں نازل فرمائیں۔ تمام انبیاء نے تمام انبیاء سے لیا۔ اس میثاق کی تشریح میں دو قول ہیں۔ پہلا قول حضرت علی ؓ کا ہے جسے امام ابن جریر نے اپنی تفسیر طبری میں اور سید محمود آلوسی نے روح المعانی میں نقل کیا ہے۔ دوسرا قول امام طاؤس کا ہے۔ آپ تابعین میں سے ہیں اور مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ بلند پایہ فقیہ اور محدث تھے۔ امام صاحب کا یہ قول مصنف عبدالرزاق میں درج ہے۔ جو کہ علم حدیث کی معتبر کتاب ہے اس کتاب کا قلمی نسخہ موجود تھا۔ اب زمانہ حال میں یہ عظیم کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔ اس میں بائیس ہزار احادیث اور آثار مذکور ہیں۔ عبدالرزاق امام بخاری کے استاذ الاساتذہ اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔ مولانا محمد یوسف بنوری (رح) کی کوششوں سے ایک مسلمان نے چار لاکھ روپیہ صرف کرکے اسے بیروت سے طبع کرایا ہے۔ اس کا حاشیہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے عالم اور بزرگ حبیب الرحمن اعظمی بعمر 85 ، 80 سال بقید حیات ہیں ، نے لکھا ہے اور کتاب کی تصحیح بھی کی ہے۔ بڑی عظیم کتاب ہے۔ اس میں اما طاؤس کا یہ قول مذکور ہے کہ اس آیت میں جس میثاق النبیین کا ذکر ہے۔ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے لیا تھا۔ ان یصدق بعضہم بعضا۔ یعنی ہر نبی دوسرے نبی کی تصدیق ہی کی ہے ، کسی نے کسی کی تکذیب نہیں کی۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ سورة احزاب کی آیت واذ اخذنا من النبیین میثاقھم و منک (احزاب آیت 7) یعنی اس واقعہ کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء اور آپ سے بھی عہد لیا۔ ومن نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم۔ اور نوح (علیہ السلام) ، ابراہیم (علیہ السلام) ، موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) سے بھی پختہ عہد لیا۔ یہ آیت بھی امام طآس کے قول کی تشریح کرتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے اس بات کا پختہ وعدہ لیا تھا۔ کہ وہ دوسرے نبی کی تصدیق کرے گا۔ یہ قول بھی درست ہے۔ حضرت علی کا قول ہے جسے صاحب روح المعانی اور امام ابن جریر نے نقل کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ میثاق انبیاء عام نہیں ہے کہ ہر نبی دوسرے کی تصدیق کرے گا۔ بلکہ یہ میثاق خاص ہے۔ اور تمام انبیاء (علیہم السلام) سے حضور خاتم النبیین ﷺ کے متعلق تھا۔ لم یبعث اللہ نبیا ادم و من بعدہ الا اخذ الیہ العھد فی محمد ﷺ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا۔ مگر حضور ﷺ کے متعلق اس سے عہد لیا۔ لئن بعث وھو حی لومنن بہ ولینصرنہ۔ کہ اگر تمہاری زندگی میں نبی آخر الزمان آجائیں تو ان پر ایمان لاؤگے اور ان کی مدد کروگے۔ لہذا یہ عہد خاص طور پر حضور ختم المرسلین ﷺ کے متعلق تھا۔ یہ قول بھی صحیح ہے۔ حضور ﷺ کے متعلق اس خاص عہد سے آپ کی ختم نبوت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کسی نبی نے حضور ﷺ کا زمانہ نہیں پایا ، جو اس میثاق کی رو سے آپ پر ایمان لاتے اور آپ کی مدد کرتے۔ البتہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب قرب قیامت میں نازل ہوں گے تو حضور ﷺ کا زمانہ پائیں گے۔ اس وقت وہ حضور ﷺ کے نائب کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوں گے اور آپ کی شریعت کے مطابق دنیا میں قرآن و سنت کا نظام جاری کریں گے۔ اس عہد سے حضور ﷺ کی خاص فضیلت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اسی بنا پر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ شب معراج میں اللہ نے تمام انبیاء کو بیت المقدس میں جمع کیا۔ فاممتہم ، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آگے کردیا اور آپ نے تمام انبیاء کو نماز پڑھائی۔ سید آلوسی بغدادی (رح) جنہوں نے حضرت علی ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے ، بلند پایہ مفسر قرآن ہوئے ہیں۔ آپ تیرھویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ 1270 ھ میں آپ کی وفات ہوئی حنفی مسلک رکھتے تھے۔ آپ نے تیس جلدوں میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی ہے۔ ہر پارے کی الگ جلد ہے۔ اور کمال یہ ہے کہ یہ تفسیر آپ نے آغاز جوانی میں لکھی۔ اس تفسیر میں تمام علوم منجملہ صرف ، نحو ، علم عقائد اور قراءت وغیرہ موجود ہیں۔ دیگر مفسرین کی طرح آپ نے بھی اپنے زمانے کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن پاک کی عظیم تفسیر کی ہے۔ یہودیوں کی خلاف ورزی : میثاق انبیاء کا تذکرہ کر رکے امتیوں کو بات سمجھائی جا رہی ہے کہ جس چیز پر انبیاء سے ایمان لانے کا عہد لیا گیا ، اس چیز پر ایمان لانا انبیاء کے امتیوں کا بطریق اولی فرض ہے۔ جب تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا گیا کہ حضور ختم المرسلین ﷺ پر ایمان لانا ، تو ان انبیاء کے اتباع کے دعویدار یہود و نصاری پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی نبوت کو تسلیم کریں۔ مگر یہ آج تک نبی کریم (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہیں۔ بلکہ مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ کہ جو عہد ان کے نبیوں نے اللہ سے کیا تھا۔ یہ اس کی پابندی کیوں نہیں کرتے۔ یہ ان کے ایمان کی خرابی ، اور ان کی حماقت ہے۔ ان کے لیے حکم یہ ہے۔ کہ وہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) پر ایمان لائیں۔ آپ کے دین کی تائید کریں اور اس کی تقویت کا باعث بنیں۔ مگر یہ لوگ الٹی مخالفت کرکے اپنے انبیاء کے عہد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) نے تو حضور ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرکے آپ سے مکمل وابستگی کا اظہار کردیا۔ آپ کی فوقیت اور عظمت کی گواہی دی۔ اور اپنے متبعین کو بھی یہی تلقین کی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے تو خاص طور پر حضور ﷺ کی آمد کی بشارت دی۔ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسموہ احمد۔ میں اپنے بعد آنے والے رسول احمد کی بشارت دیتا ہوں۔ اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔ مگر ان لوگوں نے تعصب اور عناد کی بناء پر گمراہی کا تاستہ اختیار کرلیا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ایک عہد اہل کتاب سے بھی لیا تھا۔ جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتوا لکتب۔ اس واقعہ کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے عہد لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ۔ کہ تم خدا کی کتاب اور اس کے فرمان کو لوگوں پر ظاہر کرو گے اور اس کو چھپاؤ گے نہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کا اقرار کیا۔ مگر حق آجانے کے بعد حضور کی پیشن گوئی کو کیوں چھاپتے ہیں۔ یہ بھی ان کی گمراہی کی دلیل ہے۔ پاکیزہ مشن : مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ چونکہ ایک نبی دوسرے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے انبیاء کے متبعین کا فرض ہے کہ اپنے نبی کے اتباع میں وہ بھی دوسرے انبیاء کی تصدیق کریں۔ اس سے شاہ صاحب یہ بھی اخذ کرتے ہیں۔ کہ مشائخ کو مشائخ سے یہی معاملہ کرنا چاہئے۔ کوئی شیخ وقت ، نیک بندہ یا درویش اپنے برابر والے شیخ یا اپنے سے اونچے درجے والے کی تصدیق کرے۔ اس سے دعا کرانے اور اس کی حمایت کرنے سے گریز نہ کرے۔ شاہ رفیع الدین تو یوں فرماتے ہیں کہ اللہ کے نیک بندے اور اولیاء ایک دوسرے کی کبھی مخالفت نہیں کرتے۔ الفقراء کنفس واحدۃ تمام فقراء کی مثال ایک جسد واحد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بزرگ نے دوسرے کی تکذیب نہیں کی کہ جس طرح ایک نبی دوسرے نبی کی تنقیص نہیں کرتا اسی طرح ایک اللہ والا دوسرے ولی اللہ کو اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ اس کی حمایت کرتا ہے۔ مگر اس وقت جو ایک دوسرے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ یہ نہ تو درویشی اور نہ فقراء کا سلسلہ ہے۔ یہ کچھ اور ہی ہے۔ بزرگی محض قبریں بنا لینے ، ان پر گنبد کھڑے کرلینے اور بدعات جاری کرنے کا نام نہیں ہے۔ اصل بزرگوں کا ہرگز یہ مشن نہیں ہوسکتا۔ جو اللہ کے نیک بندے ہیں وہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے ہیں۔ حضرت یحییٰ منیری (رح) ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید اور بڑے بزرگ مرد تھے۔ مشرقی میں قیام تھا۔ لوگوں نے ان کے لیے خانقاہ تیار کی اور لاکر وہاں بٹھا دیا۔ فرمانے لگے ، دوستو ! بڑا افسوس ہے ، تم نے میرے لیے ایک مندر سے بنا دیا۔ ہمارے ساتھ تو اس کا تعلق ہی قائم نہیں ہوتا۔ خواجہ فرید الدین کو بادشاہ وقت فیروز تغلق نے جاگیر کی پیش کش کی۔ آپ نے فرمایا کہ میرا اور میرے بزرگوں کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ اس جاگیر کو مستحقین میں تقسیم کردو۔ یہی بات حضرت مولانا حسین احمد مدنی (رح) نے صدر ہند راجندر پر شاد کو کہی تھی۔ حکومت نے ملک کا سب سے بڑا اعزاز پدم بھوشن پیش کرنا چاہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ میرے اور میرے بزرگوں کے طریقے کے خلاف ہے۔ اس کو اپنے پاس رکھو۔ ہم نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد اللہ کی رضا اور انسانیت کی بہتری کے لیے کی تھی۔ کوئی تمغہ یا جاگیر لینے کے لیے نہیں کی تھی۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف کرو۔ مسلمانوں کو تنگ نہ کرو۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ ، اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) سے پختہ عہد لیا۔ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ۔ جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت یعنی علم ، دانش اور فہم عطا کیا۔ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ ۔ پھر آگیا تمہارے پاس رسول۔ رسول سے مراد ہر رسول بھی ہے۔ اور بڑا رسول بھی۔ نکرۃ تعظیم کے لیے ہوتا ہے۔ جب رسول ، عظیم الشان رسول آگیا۔ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ ۔ وہ ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہو ، جو تمہارے پاس ہیں۔ تو اس وقت تمہارا فرض ہے۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ ۔ ضرور اس پر ایمان لانا۔ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۔ اور ضرور اس کی مدد کرنا۔ قَالَ ۔ اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا۔ أَأَقْرَرْتُمْ ۔ کیا تم اقرار کرتے ہو۔ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي۔ اور تم نے اس بات پر میرا پختہ عہد لیا ؟ اصر بوجھ کو کہتے ہیں اور اس سے مراد پختہ عہد ہے۔ اس کو میثاقا غلیظا بھی کہتے ہیں۔ جس طرح بوجھ کو اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح عہد کی پاسداری بھی ضروری ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے عہد لیا کہ جب میرا نبی آخر الزماں آجائے گا۔ تم اس پر ایمان لانا اور اس کی اعانت کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں۔ قَالُوا أَقْرَرْنَا۔ سب انبیاء (علیہم السلام) نے کہا ، ہم نے اقرار کیا۔ کہ ہم اس عہد کو پورا کریں گے اور ہر آنے والے نبی پر اور خصوصاً حضور ختم المرسلین ﷺ پر ایمان لائیں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بنی قریظہ کا ایک یہودی حضرت عمر ؓ کا دوست تھا۔ اس نے تورات میں سے کچھ اچھی اچھی باتیں لکھ کر آپ کو دیں حضرت عمر ؓ وہ لے کر حضور ﷺ کے پاس آئے۔ اور عرض کیا کہ میرے ایک یہودی دوست نے تورات کی بعض اچھی چیزیں لکھ کردی ہیں۔ کیا میں ان کو پڑھ لیا کروں۔ یہ سن کر ناراضگی کی وجہ سے حضور ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ فرمایا۔ اتھوکتم کما تھوکت الیھود والنصری۔ کیا تم بھی اسی طرح سرگردان ہونا چاہتے ہو جس طرح یہود و نصاری ہوئے ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ یہ تو تم تحریف شدہ تورات کا ورق لائے ہو اگر موسیٰ (علیہ السلام) بنفس نفیس آجاتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرتے تو تم گمراہ ہوجاتے۔ انا آخر النبیین۔ میں آخری نبی ہوں جو تمہارے حصے میں آیا ہوں۔ لہذا تم پر میری ہی اطاعت لازم ہے۔ اس پر حضرت عمر نے کہا۔ رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد نبیا ورسولا۔ میں راضی ہوگیا اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی اور رسول ہونے پر۔ اس پر حضور ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ الغرض ! جب تمام انبیاء نے اپنے عہد کا اقرار کرلیا۔ قَالَ ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ ۔ گواہ بن جاؤ۔ کہ تم نے یہ اقرار کرلیا ہے۔ تم نے وعدہ کیا ہے کہ جب نبی آخر الزمان (علیہ السلام) آئے گا تو اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی تائید کروگے۔ اور دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ اس بات پر گواہ ہوں۔ عہد شکنی پر وعید : فرمایا کہ پختہ عہد کرنے کے بعد۔ فَمَنْ تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ ۔ جس نے اعراض کیا اس کے بعد یعنی عہد کی پابندی نہ کی۔ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ۔ تو ایسے لوگ فاسق اور نافرمان ہوں گے۔ فاسق نافرمان ، منافق اور کافر کو بھی کہا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکاری ہے تو یہ بنیادی فسق ہے۔ انسان کافر ہوجائے گا ، ورنہ معصیت کا مرتکب خصوصاً ککبیرہ گناہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے فرمایا اس عہد کو توڑنے والا فاسقوں میں شمار ہوگا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ اگرچہ یہ بات میثاق انبیاء کے ضمن میں کہی جا رہی ہے۔ کہ عہد شکنی کرنے والا فاسق ہوجائے گا۔ مگر اس سے مراد امت کو سمجھانا ہے۔ کہ انبیاء کے کئے ہوئے عہد کو توڑ نہ دینا ورنہ تمہارا نام فاسقوں کی فہرست میں لکھ دیا جائے گا۔ اور اس سے مراد اہل کتاب خاص طور پر ہیں۔ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) سے عہد شکنی کا تو گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کا نبی ایسا کام نہیں کرسکتا۔ بلکہ نبی کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ لئن اشرکت لیحبطن عملک ۔ اگر آپ نے بھی شرک کا ارتکاب کیا۔ تو آپ کے تمام اعمال ضائع کردیے جائیں گے۔ لہذا نبی سے عہد شکنی کا گمان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امت کو سمجھانا مقصود ہے۔ کہ انبیاء کے عہد کو توڑ کر فاسقوں کے گروہ میں شامل نہ ہوجانا۔ اہل کتاب تو بیشک عہد شکن ہیں۔ مگر آج کا مسلمان بھی اس معصیت سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا کرے۔
Top