Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 59
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب هَلْ تَنْقِمُوْنَ : کیا ضد رکھتے ہو مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم سے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَنَّ : اور یہ کہ اَكْثَرَكُمْ : تم میں اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب ! تم ہم سے بس یہی ضد رکھتے ہونا کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ اور جو کچھ ہمارے اوپر اترا ہے اس پر اور جو کچھ ہم سے پیشتر اتر چکا ہے اس پر ؟ ،207 ۔ اور یہی کہ تم سے اکثر نافرمان ہیں،208 ۔
207 ۔ یعنی ہمارے اصول دین میں سے تمہیں عداوت اور ضد اس کے کس جزو سے ہے ؟ ہمارا جرم بس یہی ہے نا کہ ہم توحید کے پرستار ہیں، اور اپنے نبی کے ساتھ ساتھ تمہارے انبیاء پر بھی ایمان رکھتے ہیں ؟ قل۔ خطاب پیغمبر کو ہے کہ آپ ﷺ سب مسلمانوں کی طرف سے یہ جواب دیں۔ قال علی سبیل التعجب ھل تجدون فی ھذا الدین الا الا ایمان باللہ والایمان بما انزل علی محمد ﷺ والایمان بجمیع الانبیاء (کبیر) (آیت) ” تنقمون منا “۔ نقم کے معنی ہیں برا سمجھنا یا مبغوض رکھنا، اور عیب لگانا یہاں دونوں معنی چسپاں ہوسکتے ہیں۔ معانہ تسخطون وقیل تکرھون وقیل تنکرون والمعنی متقارب (قر طبی) ھل تنکرون مناوتعیبون (بیضاوی) 208 ۔ (خود اپنے دین کے معیار سے بھی) اہل کتاب اس وقت دینی اور اخلاقی اعتبار سے اتنے گرے ہوئے تھے کہ قرآن مجید بےتکلف انہیں اس لحاظ سے بھی ملزم قرار دے رہا ہے۔ ای فسقکم ثابت معلوم عندکم (بیضاوی) انتم فی دینکم فساق لاعدول (کبیر) (آیت) ” وان “ میں۔ و، مع کے معنی بھی دے سکتا ہے۔ یجوزان یکون الواو بمعنی مع (کشاف۔ کبیر) اس ترکیب کے بعد آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم ہم سے ہمارے ایمان ہی کی بنا پر تو خفا ہو، باوجود اس کے کہ اکثر تم خود ہی نافرمان ہو۔ ماتنقمون منا الاالا یمان مع ان اکثرکم فاسقون (کشاف) ای لان اکثرکم فاسقون تنقمون منا ذلک (قرطبی)
Top