Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 23
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا اَلْمَلِكُ : بادشاہ الْقُدُّوْسُ : نہایت پاک السَّلٰمُ : سلامتی الْمُؤْمِنُ : امن دینے والا الْمُهَيْمِنُ : نگہبان الْعَزِيْزُ : غالب الْجَبَّارُ : زبردست الْمُتَكَبِّرُ ۭ : بڑائی والا سُبْحٰنَ : پاک اللّٰهِ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ بادشاہ حقیقی پاک ذات (ہر عیب سے) سالم امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
(59:23) ھو اللہ الذی لا الہ الاھو : ملاحظہ ہو آیت 59:23 متذکرۃ الصدر) الملک : اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ اسم معرفہ۔ بادشاہ ۔ جو چاہے کرے۔ اور اس کے فعل پر کسی کو مجال اعتراض نہ ہو۔ اسم نکرہ کوئی بادشاہ ۔ کوئی حاکم۔ القدوس مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بہت پاک۔ بہت برکت والا۔ بروزن فعول (بضم ف) پر کلام عربی میں صرف چار لفظ آئے ہیں (1) قدوس : بہت پاک۔ برکت والا۔ (2) سبوح : پاک و برتر۔ اسماء حسنی میں سے ہے۔ (3) ذروح : (ایک اڑنے والا زہریلا کیڑا ۔ سپینی مکھی) (4) فروح : بہت خوش۔ اور ان کو بھی بفتحپڑھنا جائز ہے باقی اس وزن پر جتنے لفظ آتے ہیں سب بفتحآئے ہیں۔ السلم : ذو سلامۃ من النقائص یعنی ہر قسم کی خامیوں سے محفوظ ، بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آلام و مصائب سے بچاتا ہے۔ المؤمن : اسم فاعل واحد ذکر ایمان مصدر۔ امن دینے والا ۔ یا المصدق لرسلہ باظھا ، معجزاتہ علیہم۔ اپنے پیغمبروں سے معجزات کا اظہار کرا کے ان کی رسالت کی تصدیق فرماتا ہے۔ المھیمن : اسم فاعل واحد مذکر ہیمنۃ مصدر ۔ نگران ۔ اس کا اصل ا امن فھو مؤامن ہے دوسرا ہمزہ یاء سے اور پہلا ہمزہ ” ہ “ سے بدل دیا گیا۔ اس طرح مہیمن بن گیا۔ العزیز : عزۃ سے فعیل کے وذن پر بمعنی فاعل مبالغہ کا صیغہ ہے غالب (جو مغلوب نہ ہو) زبردست ، قوی۔ الجبار : المصلح امور خلقہ المتصرف فیہم بمافیہ صلاحہم۔ یعنی اپنی مخلوقات کے امور کو درست کرنے والا۔ اور اس میں ویسا تصرف کرنے والا جس میں ان کی فلاح اور بہبود ہوتی ہے اس صورت میں یہ جبر سے مشتق ہوگا۔ (ضیاء القرآن) ۔ سرکش، زبردست دباؤ والا۔ خود اختیار ۔ جبر سے مبالغہ کا صیغہ ہے (لغات القرآن) جبار ذات باری تعالیٰ کے لئے وصفت مدرح ہے اور انسانوں کے حق میں صفت ذم ہے۔ (خازن بغدادی) المتکبر : اسم فاعل واحد مذکر تکبر (تفعیل) مصدر۔ سربلندی اور عظمت کی آخری حد کو پہنچا ہوا۔ تکبر دو طرح کا ہوتا ہے :۔ (1) فی نفسہ کسی میں خوبیاں اور صفات حسنہ سب سے زائد ہوں۔ (2) واقع میں تو صفات حسنہ سے خالی ہو اور مدعی ہو کمال صفات کا۔ اور ل محمود ہے اور دوسرا مذموم اور قبیح ہے۔ تکبر کی بدترین قسم یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے سرکشی کرے اور خود سربن جائے۔ (المفردات) سبحان اللہ : سبحان مصدر ہے بمعنی تسبیح (پاکی بیان کرنا) نصب نیز مفرد کی طرف اضافت اس کو لازم ہے۔ خواہ مفرد اسم ظاہر ہو جیسے سبحان اللہ (اللہ پاک ہے) اور سبحان الذی اسری : (پاک ہے وہ ذات جو لے گیا رات کے وقت) یا اسم ضمیر جیسے سبحانہ ان یکون لہ ولد : (اس کے لائق نہیں ہے کہ اس کے اولاد ہو) ۔ اللہ مجرور بوجہ مضاف الیہ ہونے کے۔ عما یشرکون : مرکب ہے رن حرف جار اور ما موصولہ سے۔ جس چیز سے یشرکون مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب اشراک (افعال) مصدر۔ صلہ ہے موصول کا۔ جس چیز کو وہ اس کا (یعنی اللہ کا) شریک بناتے ہیں۔ یعنی اللہ پاک ہے اس چیز سے جس کو وہ (اس کا) شریک بناتے ہیں۔
Top