Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 24
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ؕ یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الْخَالِقُ : خالق الْبَارِئُ : ایجاد کرنیوالا الْمُصَوِّرُ : صورتیں بنانیوالا لَهُ : اس کے لئے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى ۭ : اچھے يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ ۚ : اور زمین وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق ایجاد واختراع کرنیوالا صورتیں بنانے والا اسکے سب اچھے سے اچھے نام ہیں جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
(59:24) الخالق : پیدا کرنے والا۔ بنانے والا۔ خلق (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ الباری : نکال کھڑا کرنے والا۔ پیدا کرنے والا ۔ برء (باب نصر) مصدر سے جس کے معنی بنانے کے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ باری اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے برأ یبرأ کا استعمال پیدا کرنا کے معنی میں ہوتا ہے اس اعتبار سے باری۔ خالق کے ہم معنی ہوگا۔ لیکن آیت ہذا (ھو الخالق الباری المصور) وہی اللہ ہے بنانے والا۔ نکال کھڑا کرنے والا۔ صورت کھینچنے والا۔ سے پتہ چلتا ہے کہ خالق اور باری دو علیحدہ علیحدہ صفتیں ہیں۔ اور ان دونوں میں باہم فرق ہے۔ البتہ ہم معنی ماننے کی صورت میں باری کو خالق کی تاکید سمجھا جاسکتا ہے۔ علامہ آلوسی (رح) لکھتے ہیں :۔ کہ باری وہ ہے جس نے مخلوق کو تفاوت اور اجزاء و اعضاء کے عدم تناسب سے بری پیدا کیا۔ یعنی یہ نہیں کیا کہ ایک ہاتھ تو بہت چھوٹا اور پتلا ہو اور دوسرا بہت موٹا اور بڑا۔ اسی طرح خاصیتوں اور شکلوں اور نیز خوبی اور برائی میں ایک دوسرے سے ممتاز فرمایا ۔ پس اس اعتبار سے باری خاص ہے اور خالق عام ۔ (روح المعانی) یعنی خالق کے معنی ہیں صرف پیدا کرنے والا۔ اور باری کے معنی خاص صفت پر پیدا کرنے والا۔ المصور : اسم فاعل واحد مذکر تصویر (تفعیل) مصدر سے صورت بنانے والا۔ پیدا کرنے والا۔ لہ : میں لام استحقاق کا ہے۔ اسی کے لئے ہیں۔ اسماء الحسنی : موصوف و صفت، خوبصورت نام۔ یسبح : مضارع واحد مذکر غائب۔ تسبیح (تفعیل) مصدر۔ اس کی تسبیح پڑھتا ہے۔ اس کی پاکی بیان کرتا ہے۔ اس کے پاک ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ ما : موصولہ۔ فی السموت والارض اس کا صلہ۔ جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ وھو العزیز الحکیم۔ جملہ معترضہ تذییلی ہے۔ ماقبل کی تاکید و تعظیم کے لیے آیا ہے۔ الحکیم : حکمت والا۔ بروزن (فعیل) صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں سے ہے ۔ کیونکہ اصل حکمت و دانائی اسی کی ہے۔
Top