Tadabbur-e-Quran - Al-Hashr : 24
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ؕ یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الْخَالِقُ : خالق الْبَارِئُ : ایجاد کرنیوالا الْمُصَوِّرُ : صورتیں بنانیوالا لَهُ : اس کے لئے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى ۭ : اچھے يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ ۚ : اور زمین وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہی اللہ ہے نقشہ بنانے والا، وجود میں لانے والا، صورت گری کرنے والا۔ اسی کے لیے ساری اچھی صفتیں ہیں۔ اسی کی تسبیح کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ غالب و حکیم ہے۔
(ھو اللہ الخالق لباری المصورلہ الاسماء الحسنی یسبح لہ ما فی السموات والارض وھو العزیز الحکیم) (24) یعنی یہ اللہ ہی ہے جو ہر چیز کے وجود کے تمام مراحل کو طے کراتا ہے۔ وہی ہر چیز کا خاکہ تیار کرتا ہے۔ وہی پھر اس کو جود بخشتا ہے پھر وہی اس کی صورت گری کرتا اور نوک پلک سنوارتا ہے۔ ان میں سے کسی مرحلہ میں نہ وہ کسی سے طالب مدد ہوتا نہ کوئی اس کا ہاتھ بٹایا یا بٹا سکتا ہے تو آخر کوئی دوسرا اس کا کسی چیز میں بھی شریک کس طرح بن جائے گا ! ہر وجود کے اندر یہی تین اولین مرحلے پیش آتے ہیں۔ پہلا مرحلہ اس کے ڈیزائن کا ہوتا ہے جس کے لیے عربی میں لفظ (خلق) ہے۔ دوسرا مرحلہ اس کو وجود میں لانے کا ہے اس کے لیے لفظ ’ برء ‘ ہے۔ تیسرا مرحلہ اس کی نوک پلک سنوارنے کا ہے اس کے لیے لفظ تصویر ہے۔ اگر ہر شے کے یہ تینوں مرحلے اللہ طے کراتا ہے تو وہی ہر ایک کی تسبیح اور بندگی کا حق دار ہے۔ (لہ الاسماء الحسنی) یعنی یہ توحید بنیادی صفات ہیں جو بیان ہوئی ہیں، ان کے علاوہ جتنی بھی اچھی صفتیں ہیں ان سب کا حقیقی موصوف وہی ہے۔ لفظ اسماء یہاں صفات کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی نام ہیں وہ سب اس کی کسی نہ کسی صفت ہی کو تعبیر کرتے ہیں۔ (یسبح لہ ما فی السموات والارض) چونکہ ہر چیز کے وجود کے تمام مراحل اللہ تعالیٰ ہی نے طے کرائے ہیں اس وجہ سے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہے۔ انسان اگر اختیار سے بہرہ مند ہونے کے سبب سے اس سے اعراض کرتا ہے تو یہ اس کی حق شناسی اور سرکشی ہے۔ اس کے لیے بھی صحیح رویہ یہی ہے کہ وہ اپنے رب ہی کی تسبیح و بندگی کرے، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔ (وھو العزیز الحکیم)۔ یہ آخر میں اپنی ان صفات کی پھر یاد دہانی کرا دی جن سے سورة کا آغاز فرمایا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ عزیز ہے اس وجہ سے وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو انسان بھی اسی طرح مجبورا نہ اپنے رب کی بندگی اور تسبیح کرتا جس طرح ساری کائنات کر رہی ہے لیکن وہ حکیم بھی ہے اس وجہ سے اس نے یہ چاہا کہ وہ انسان کو اختیار دے کر آزمائے کہ وہ یہ شرف پا کر اپنے رب کا حق پہچانتا ہے یا شیطان کا مرید بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان سطور پر اس سورة کی تفسیر تمام ہوئی۔ (فالحمد للہ علی ذلک)۔ (رحمان آباد۔ 3، فروری 1978 ء۔ 23 صفر 1398 ھ۔
Top