Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 24
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ؕ یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الْخَالِقُ : خالق الْبَارِئُ : ایجاد کرنیوالا الْمُصَوِّرُ : صورتیں بنانیوالا لَهُ : اس کے لئے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى ۭ : اچھے يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ ۚ : اور زمین وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت گری کرنے والا اسی کے لئے ہیں سب اچھے نام اسی کی پاکی بیان کرتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی ہے سب پر غالب انتہائی حکمت والاف 2
[ 70] اللہ ہی خالق ہے سب کا۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہی اللہ پیدا کرنے والا ہے " یعنی ہر چیز کو جو اس کو حکمت کے مطابق مقدر فرمانے والا ہے۔ جو اشیاء کو اپنے ارادہ اور مشیت کے مطابق مقدر فرماتا ہے۔ [ فتح القدیر وغیرہ ] اور پھر ان کو خلعت وجود سے نوازتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو خالق ہر چیز کا اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا۔ اللہ خالق کل شیء وھو علی کل شیئٍ وکیل۔ [ سورة الزمر : 62 پ 24] یعنی " اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے اور اس کو وجود بخشنے والا ہے اور وہی ہر چیز پر نگران اور اس کا محافظ ہے " واضح رہے کہ خلق کے اصل معنی تقدیر اور اندازہ کرنے کے ہیں چناچہ عربی میں کہتے ہیں۔ خلق النعل اذا قدرھا و سواھا بمقیاس [ روح البیان ] لیکن پھر اس کا عام استعمال " ایجاد علی تقدیر واستوائ " کے معنی میں ہونے لگا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو وجود بخشا اور اس کو نہایت عمدہ اندازے اور تقدیر و توازن پر پیدا فرمایا سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور جب خالق وہی وحدہ لاشریک ہے تو معبود برحق بھی وہی ہے، اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل بھی اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے کہ خالق و مخلوق کبھی اور کسی بھی درجے میں برابر نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { افمن یخلق کمن لا یخلق ط افلا تذکرون }[ سورة النحل : 17 پ 14] یعنی کیا وہ جو سب کو پیدا کرے اور جو کچھ بھی پیدا نہ کرے دونوں باہم برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟ " پس معبود برحق وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اس کا کوئی بھی شریک وسہیم نہیں، ہر قسم کی عبادت اسی کا حق ہے، والحمدللّٰہ رب العالمین قبل کل شیء وبعد کل شیء وفی کل زمان ومکان۔ [ 71] اللہ ہی وجود بخشنے والا ہے سب کو، سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی وجود بخشنے والا ہے یعنی وہی وجود بخشنے والا ہے ہر مخلوق کو۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کیونکہ " الباری " کا معنی و مطلب ہے وجود بخشنے والا۔ سو اپنی مقدر فرمودہ ہر مخلوق کو اس کے مقصد تخلیق اور قوانین فطرت کے مطابق وجود بخشنے اور صفحہ ہستی پر لانے والا، اور اس کو عدم محض سے منصہ شہود وجود پر لانے والا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو پہلا مرتبہ ہوگیا خلق یعنی ہر چیز کے وجود کو مقدر کرنا۔ پھر دوسرا مرتبہ ہوگیا انشاء و ایجاد یعنی عدم سے وجود میں لانا، اور اس کی حکمت کے مرہون منت ہیں، سبحانہ وتعالیٰ ، اس میں سے کسی بھی مرحلے میں اور کسی بھی اعتبار سے اور کسی بھی درجے میں اس وحدہ لاشریک کا نہ کوئی شریک ہے نہ کوئی ہوسکتا ہے، پس معبود برحق وہی وحدہ لاشریک ہے۔ [ خازن اور معالم وغیرہ ] سو الباری ماخوذ ہے البرء سے، جس کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو اس طور پر وجود بخشنا اور ایجاد کرنا جو اس کے وجود، اس کے مقصد تخلیق اور اس کی غرض وغایت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو، اور ایسا کہ وہ ہر طرح کے تفاوت و نقصان سے بری ہو، [ روح وغیرہ ] اور یہ شان صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کی ہوسکتی ہے، پس معبود برحق وہی ہے اور ہر قسم کی عبادت اسی کا حق ہے۔ جل جلالہ وعم نوالہ۔ [ 72] اللہ ہی صورت بخشنے والا ہے سب کو، سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی ہے صورت گری فرمانے وال۔ سو وہی ہے جو اپنی لا تعداد و بیشمار مخلوق میں سے ہر ایک کی نہایت عجیب و غریب اور حیرت انگیز طریقے سے صورت گری فرماتا ہے، اور ایسی کہ کوئی بھی دو چیزیں ایسی نہیں مل سکتیں، جو ظاہر اور باطن پر اعتبار سے آپس میں یکساں اور باہم برابر ہوں، فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین اور مخلوق کی صورت گری کی اس صفت میں کوئی بھی اس کا شریک سہیم نہیں ہوسکتا، بلکہ وہی وحدہ لاشریک جسے اور جس طرح چاہے ہر کسی کی اپنی مشئیت ومرضی کے مطابق صورت گری فرماتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { فیای صورۃ ماشاء رکبک } [ الانفطار : 8 پ 30] یعنی " اس رب کریم نے جس شکل و صورت میں چاہا تم کو ڈھال دیا "۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشآء ط الا الہ الا ھو العزیز الحکیم } [ آل عمران : 6 پ 3] یعنی " وہ اللہ وہی ہے جو صورت گری فرماتا ہے تم سب لوگوں کی تمہاری ماؤں کے رحموں کے اندر جس طرح چاہتا ہے۔ وہی ہے بڑا زبردست نہایت ہی حکمت والا " سو " الخالق "، " الباری " اور " المصور " کی ان تینوں صفات کریمہ کے ذکر سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ہر چیز کے وجود کے تمام مراحل کو اللہ تعالیٰ ہی اپنی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ سے طے کرتا ہے۔ سو وہی ہر چیز کا خاکہ تیار کرتا ہے۔ پھر وہی اس کو وجد بخشتا ہے، اور وہی اس کی صورت گرمی کرتا ہے، اور اس کی نوک پلک سنوارتا اور درست فرماتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ ان میں سے کسی بھی مرحلے میں کوئی بھی اس کا شریک وسہیم نہیں۔ تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کس طرح ہوسکتا ہے ؟ پس ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے اس کی کوئی بھی قسم کسی اور کیلئے بجالانا شرک اور ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، [ 73] اللہ ہی کے لیے ہیں سب اچھے نام : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ اسی کیلئے ہیں سب اچھے نام کہ سب خوبیوں اور اچھائیوں کا مال و مستحق وہی اور تنہا وہی ہے۔ باقی تمام مخلوق میں سے جہاں بھی کسی کے اندر کوئی خوبی و اچھائی پائی جاتی ہوگی تو وہ اسی کی بخشی ہوئی ہوگی۔ سنن ترمذی اور مسند امام احمد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ میں آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ جو کوئی صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللّٰہ السمیع العلم من الشیطن الرحیم پڑھ کر سورة ٗ حشر کی یہی آخری تین آیتیں پڑھ لے تو اللہ پاک اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو اس کیلئے دعاء کرتے رہتے ہیں، اور اگر اس دن میں اس کو موت آگئی تو وہ شہید مرے گا اور شام کو پڑھنے پر بھی یہی اجر ہے۔ [ ابن کثیر، جامع البیان وغیرہ ] بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ تو اس وحدہ لاشریک کی چند ہی صفات ہیں جو یہاں پر بیان فرمائی گئی ہیں، ورنہ جتنی بھی اچھی صفتیں ہیں ان سب کا حقیقی موصوف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، کہ ہر خوبی و کمال کا مستحق و موصوف اور اس کا منبع ومصدر وہی وحدہ لاشریک ہے، اور اسماء کا لفظ یہاں پر صفات کے معنی میں ہے کہ اس وحدہ لاشریک کے جتنے بھی نام ہیں وہ سب اس کی کسی نہ کسی صفت کو ظاہر کرتے ہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ سو اس سے دو اہم اور بنیادی درس ملتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اللہ پاک۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کی معرفت اس کے اسماء وصفات ہی سے ہوسکتی ہے۔ ورنہ اس کی کنہ ذات تک پہنچنا تو کسی کیلئے ممکن ہی نہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور دوسری اہم اور بنیادی حقیقت اس سے یہ بھی واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن حکیم کی آیات بینات اور اس کی تعلیمات مقدسہ کے " نور مبین " کے بغیر اللہ پاک کی معرفت اور عقیدہ توحید سے سرفرازی ممکن نہیں۔ پس جو لوگ قرآن حکیم کے نور مبین سے محروم ہیں وہ اپنے خالق ومالک کی معرفت اس کی توحید وحدانیت اور اس کے حقوق کے علم و آگہی سے محروم اور سراسر اندھیروں میں ہیں، اور وہ { فی ظلمات بعضھا فوق بعض } کا مصداق ہیں۔ جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویا ارحم الراحمین، ویا اکرم الاکرمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ،
Top