Anwar-ul-Bayan - Al-Haaqqa : 52
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَسَبِّحْ : پس تسبیح بیان کیجئے بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ : اپنے رب عظیم کے نام کی
سو تم اپنے پروردگار عزوجل کے نام کی تنزیہہ (تسبیح) کرتے رہو۔
(69:52) فسبح باسم ربک العظیم :ترتیب کا ہے پس۔ فسبح امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر، پس تو تسبیح بیان کر اپنے رب کی جو بڑے شان والا ہے۔ فائدہ : حق الیقین۔ حقیقت اگرچہ بذات خود ایک یقینی امر ہے لیکن انسانی قویٰ و ادراک کے لحاظ سے اس کے مختلف مدارج ہیں۔ جہاں تک انسان کسی امر کو اپنی عقل و فہم اور متعلقہ شہادت کی بناء پر یقینی قرار دیتا ہے اسے علم الیقین کہتے ہیں ۔ کہ اس کو حقیقت کی موجودگی کا علم کی بنای پر یقین ہوگیا ہے پھر جب اس حقیقت کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو اسے عین الیقین کہیں گے۔ لیکن ہمارا علم جو شہادت اور فہم و ادراک پر مبنی ہو وہ کسی حد تک غلطی سے مبرا و بالاتر نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہماری چشم دیدنی۔ کہ اکثر آنکھ بھی دھوکہ کھا سکتی ہے اس لئے عین الیقین بھی نقائص سے مبرا نہیں ہے ان ہر دو سے بالا حق الیقین ہے۔ اس کی دنیاوی مثال یوں ہوسکتی ہے کہ ایک شخص نے دریا کی ہیئت و کیفیت کو کتابوں میں پڑھا اور لوگوں سے سنا تو اس کو دریا کے متعلق علم الیقین ہوگیا۔ پھر جب وہ دریا پر پہنچا اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کی روانی کو ساحل دریا پر اس کے پانی کے عمل و دخل کو اس کی وسعت کو دیکھا اس کا علم الیقین عین الیقین میں بدل گیا لیکن اس کے باوجود اس کے ذہن سے بعض باتوں کے متعلق ابہام و تردد نہ گیا وہ دریا میں اتر گیا تو اس کے جملہ شکوک رفع ہوگئے اس نے حق الیقین کو پالیا۔
Top