(94:4) ورفعنا لک ذکر ک : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور کیا ہم نے آپ کے ذکر کا آوازہ بلند نہیں کیا۔ یعنی ہم نے آپ کے لئے آپ کا ذکر بلند کردیا۔ کیسے بلند کیا ؟ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔
اتانی جبریل (علیہ السلام) وقال ان ربک یقول قتدری کیف رفعت ذکر ک قلت اللہ تعالیٰ اعلم بہ ۔ قال اذا ذکرت ذکرت معی۔ میرے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے اور کہا کہ آپ کا رب پوچھتا ہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کے ذکر کو کیسے بلند کیا میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے جبریل نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔
اور صورت رفع ذکر کی یہ ہے حضرت حسان بن ثابت کا شعر ہے :۔
وضم الالہ اسم الببی الی اسمہ اذا قال فی الخمس المؤذن اشھد
وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذوا العرش محمود وھذا محمد
اللہ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا دیا ہے۔ جب کہ پانچوں وقت مؤذن اشھد کہتا ہے۔ اور ان کی عزت افزائی کے لئے اپنے ہی نام سے ان کا نام نکالا ہوا ہے۔ پس مالک عرش تو محمود ہے اور وہ محمد ﷺ ہیں۔
علامہ آلوسی (رح) لکھتے ہیں :۔
ترجمہ :۔ اور اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمہ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملا دیا۔ حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ ملائکہ کے ساتھ آپ پر درود بھیجا۔ اور مؤمنوں کو درود پاک پڑھنے کا حکم دیا۔ اور جب بھی خطاب کیا معزر القاب سے مخاطف کیا۔ جیسے یایھا المدثر۔ یایھا المزمل پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپ کا ذکر فرمایا۔ تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے وعدہ لیا کہ وہ آپ پر ایمان لے آئیں۔
علی ھذا القیاس رفع ذکر کی ہزاروں مثالیں مل سکتی ہیں۔