Ashraf-ul-Hawashi - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
پھر ان بےانصافوں نے بات بدل دی جو بتلائی گئی تھی وہ نہ کہی اور کچھ بکنے لگے آخر ہم نے ان شریروں پر آسمان سے عذب اتارا ان کی نافرمانی پر3
3 ۔ مگر ان ظالموں نے اللہ کے اس حکم کا مذاق اڑایا اور حطتہ کی بجائے حنطتہ فی شھرہ ( یعنی گندم بالی میں) کہتے ہوئے بجائے نیازیی مندی اور سجدہ ریز ہونے کے اپنے سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داضل ہوئے۔ بتایئے کہ اس سے بڑھ کر عناد اور حکم الہی کی مخالفت اور کہا ہوسکتی تھی اس عظیم نافرمانی کو قرآن نے فسق سے تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی طاعت حدود کلیتہ نکل جانے کے ہیں اس بنا پر ان کو ظالم قرار دیا اور ان کے اس ظلم کی سزا میں ان پر طاعون کا عذاب نازل فرمایا ہے رجز کے معنی گو مطلق عذاب کے ہیں مگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون " مراد ہے سنن نسائی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا الطا عون رجز عذابہ من قبلکم کہ طاعون بھی رجز یعنی عذاب ہے جو تم سے پہلی قوموں پر نازل کیا گیا تھا بعض نے اس کی تفسیر عضب الہی سے کی ہے جو پہلے قول کے منا فی نہیں ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ قصہ سورة المائدہ میں بھی مذکور ہے مگر وہ سورة چونکہ مکی ہے اس لیے ضمیر غائب سے ان کو ذکر کیا ہے اور یہ سورة مد نیے اور مدنیہ میں یہود سامنے تھے اس لیے ضمیر مخاطب لائی گئی ہے۔ الغرض ان دونوں قصوں ( بقرہ اور مائدہ) کے مابین با عتبار سیاق دس وجوہ سے فرق پایا جاتا ہے جن میں سے بعض کا تعلق الفاظ سے ہے اور بعض کا معنی ہے علامہ مخشری نے ان کی خوب وضاحت کی ہے اور اس سیاق میں بعید کی آیت بھی شامل ہے مگر اما رازی نے پہلی دو آیتوں کے تحت سوال و جواب کے رنگ میں ان وجوہ عشرہ کو بیان فرمایا ہے واللہ اعلم۔
Top