Ashraf-ul-Hawashi - Al-An'aam : 160
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا١ۚ وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
مَنْ : جو جَآءَ بالْحَسَنَةِ : لائے کوئی نیکی فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَشْرُ : دس اَمْثَالِهَا : اس کے برابر وَمَنْ : اور جو جَآءَ بالسَّيِّئَةِ : کوئی برائی لائے فَلَا يُجْزٰٓى : تو نہ بدلہ پائے گا اِلَّا مِثْلَهَا : مگر اس کے برابر وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : نہ ظلم کیے جائیں گے
جو شخص قیامت کے دن ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس ویسی ہی نیکیوں کا ثواب ملے گا6 اور جو کوئی ایک برائیہ لائے گا اس کو اتنی ہی ایک برائی کی سزا ملے گی7 اور ان پر ظلم نہ ہوگا
6 یہاں حسنہ او سیئہ عام ہیں جو ہر قسم کی نیکی اور برائی کو شامل ہیں اور یہاں عشر امثال (دس گنا بدلہ) سے مقصد تحدید نہیں ہے بلکہ کئی دس گنے ہوسکتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ساتھ گنا تک اور اس سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ جیسا کہ سورة بقرہ آیت 245، میں گزر چکا ہے۔ (رازی)7 بشر طی کہ دنیا میں توبہ نہ کرلی ہو اگر توبہ کرے یا اس کی نیکیاں برائیوں سے زیادہ ہوں یا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے معاف فرمادے تو یہ سزا بھی نہیں ملے گی، حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کا قصد کرے اور عمل نہ کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اگر اور اگر برائی کا قصد کرے اور برائی نہ کرے تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا، (مسلم۔ ابن ماجہ بردیت انس بن مالک) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ترک سیئہ تین قسم کا ہے اول یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر برایہ کا ترک کرے یہ چونکہ عمل اور نیت سے اس لیے اسے ایک نیکی کا ثواب ملے گا جیسا کہ الصحیح کے بعض الفاظ میں ہے فانما تر کھا من جزانی کہ اس نے مجھے سے ڈر کر برائی کر ترک کیا دوم یہ کہ نسیان اور ذہول کی وجہ سے برای نہ کرسکے اس صورت میں نہ تو اس پر گناہ ہوگا اور نہ کچھ ثواب ہی ملے گا تیسرے یہ کہ باوجود کوشش کے برائی نہ کرسکے ایسی برائی کا اس پر گنا ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلوار سے ایک دوسرے کو قتل کر نیکی کوشش کرتے ہیں قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے لوگوں نے سوال کیا مقتول کا کیا گناہ ہے فرمایا کہ وہ بھی دوسرے کو قتل کرنے کوشش میں تھا۔ ( ابن کثیر) بعض سلف نے یہاں نیکی سے مراد توحید کا اقرار اور اور برائی سے مراد شرک لیا ہے واللہ اعلم ( قرطبی ، )
Top