Al-Qurtubi - Al-An'aam : 160
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا١ۚ وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
مَنْ : جو جَآءَ بالْحَسَنَةِ : لائے کوئی نیکی فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَشْرُ : دس اَمْثَالِهَا : اس کے برابر وَمَنْ : اور جو جَآءَ بالسَّيِّئَةِ : کوئی برائی لائے فَلَا يُجْزٰٓى : تو نہ بدلہ پائے گا اِلَّا مِثْلَهَا : مگر اس کے برابر وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : نہ ظلم کیے جائیں گے
جو کوئی (خدا کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسی ہی ملے گی۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
آیت نمبر : 160 قولہ تعالیٰ : آیت : من جآء بالحسنۃ ان میں من مبتدا اور وہی شرط ہے اور جواب شرط فلہ عشر امثالھا ہے یعنی اس کے لیے اس کی مثل دس نیکیاں ہوں گی، اس میں حسنات کو حذف کردیا گیا ہے اور امثال کو اس کے قائم مقام رکھ دیا گیا ہے جو اس کی صفت ہے ( یعنی حسنات امثالھا) اور امثال، مثل کی جمع ہے۔ اور سیبویہ نے بیان کیا ہے : عندی عشرۃ نسا بات، ای عندی عشرۃ رجال نسابات ( میرے پاس دس صاحب نسب آدمی ہیں تو اس میں رجال کو حذف کر کے اس کا قائم مقام نسابات جو کہ صفت ہے، کر رکھ دیا گیا ہے) اور ابو علی نے کہا ہے : آیت : عشرامثالھا میں تانیث اچھی ہے، کیونکہ امثال مونث کی طرف مضاف ہے اور مونث کی طرف اضافت جب معنی میں بھی ہو تو اس میں تانیث اچھی اور حسین ہوتی ہے، جیسے آیت : یلتقطہ بعض السیارۃ (یوسف : 10) اور ذھبت بعض اصابعہ۔ حسن، سعید بن جبیر اور اعمش رحمۃ اللہ علیہم نے آیت : فلہ عشر امثالھا پڑھا ہے اور تقدیر عبارت ہوگی : فلہ حسنات امثالھا یعنی اس کے لیے اس جزا میں سے دس گناہ ہوگی جو اس کے لیے ثابت ہوگی۔ اور یہ بھی جائزہ ہے کہ اس کے لیے ایک مثل ہو اور پھر اس مثل کو کئی گنا کیا جاتا ہو اور وہ پس وہ دس ہوجاتی ہو۔ اور یہاں الحسنۃ سے مراد ایمان ہے، یعنی جس نے یہ شہادت دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس نے دنیا میں جو بھی نیکی اور خیر کا عمل کیا اس کے ہر عمل کے بدلے ثواب دس گنا ہوگا۔ آیت : ومن جآبالسئیۃ یہاں سیئۃ سے مراد شرک ہے۔ آیت : فلا یجزی الامثلھا ( تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اس ایک برائی کے برابر ( اور وہ بدلہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے، کیونکہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور آتش جہنم میں سے سب بڑی سزا ہے، پس اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : جزاء وفاقا ( النبائ) یعنی ایسی جزا جو عمل کے موافق ہوگی۔ اور رہی نیکی تو وہ اس کے خلاف ہے، کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نص موجود ہے اور حدیث میں ہے : الحسنۃ بعشر امثالھا وازید والسیۃ واحدۃ واغفر فالویل لمن غلبت احادہ اعشارہ ( ایک نیکی کا بدلہ دس گنا اور اس سے بھی زائد ہے اور برائی ( گناہ) ایک ہے اور اس کی مغفرت فرما دیتا ہوں لیکن ہلاکت اور بربادی ہے اس کے لیے جس کی ایک برائی ان دس پر غالب آگئی) ۔ اور اعمش نے ابو صالح سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : حسنہ سے مراد لا الہ الا اللہ ہے اور سیہ سے مراد شرک ہے۔ آیت : وھم لا یظلمون یعنی ان کے اعمال کا ثواب کم نہیں کیا جائے گا۔ تحقیق اس آیت کا بیان سورة البقرہ میں گزر چکا ہے اور یہ انفاق فی سبیل اللہ سے مختلف ہے اور اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے : دس گنا تمام نیکیوں کے لیے ہے۔ اور سات سو گنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ہے اور اس میں خاص اور عام برابر ہیں۔ اور بعض نے کہا ہے : عوام کے لیے دس گناہ ( بدلہ) ہوتا ہے اور خواض کے لیے سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ جو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ امر توقیف کا محتاج ہوتا ہے۔ اور پہلا قول اصحہ ہے، کیونکہ خریم بن فاتک کی حضور نبی کریم ﷺ سے حدیث ہے اس میں ہے : امام حسنۃ بعشر فمن عمل حسنۃ فلہ عشر امثاللھا واما حسنۃ بسبعمائۃ فالنفقۃ فی سبیل اللہ ( ایک نیکی دس کے برابر ہے پس جس نے ایک نیک عمل کیا تو اس کے لیے اس کی مثل دس ہوں گی اور رہی وہ نیکی جو سات سو کے برابر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے) ۔
Top