Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور بیشک ہم نے تم کو پیدا فرمایا پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرو پس انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا
رکوع نمبر 2 ۔ آیات نمبر 11 تا 25: اسرار و معارف : انسانی زندگی محض ایک حادثہ نہیں اور نہ نیک و بد کی آویزش محض کھیل ہے اس کا ایک پس منظر ہے جو تمہاری بھلائی کے لیے بیان کردیا جاتا ہے مقصد سامنے آجائے گا تو کامیابی اور ناکامی کا اندازہ کرنا تمہیں آسان ہوگا اب تو صرف مادی ترقی کو کمال سمجھ رہے ہو پھر جان سکو گے کہ اول ضرورت روحانی ترقی کی ہے مادی کمالات اس کے تابع ہیں اگر روحانی ارتقا سے آدمی محروم ہوجائے تو مادی انکشافات دکھوں میں اضافہ ہی کرتے ہیں ان میں سے بھی بھلائی اور بہتری کا پہلو رخصت ہوجاتا ہے۔ اصل بات یوں ہے۔ انانیت : کہ ہم نے تمہیں یعنی تمہارے جد آدم (علیہ السلام) کو اس طرح پیدا فرمایا کہ ان کا مادہ تخلیق فرمایا پھر سے یجا کرکے ایک بہترین صورت عطا کی پھر اسے کائنات کے بارے علوم عطا فرمائے اور یوں مدتوں پہلے سے پیدا شدہ نوری اور اطاعت شعار مخلوق یعنی فرشتوں پر بھی اسے اس قدر برتری بخشی کہ انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا سب نے سر تسلیم خم کردیا مگر ایک ابلیس جو جنوں میں تھا مگر اپنی عباد و مجاہدے سے فرشتوں کے ساتھ دینے کا درجہ پا لیا تھا وہ نہ جھکا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ فرمایا پوچھا گیا کہ جب بارگاہ صمدیت سے حکم تھا تو تجھے کونسی بات مانع ثابت ہوئی کیوں تعمیل ارشاد سے محروم رہا۔ تو پکار اٹھا اللہ میں اس سے بہتر ہوں۔ اسی کو انانیت کہا گیا ہے کہ آدمی جب ان اوصاف یا کمالات کو دیکھتا ہے جو اس کی ذات میں واقعی موجود ہوں تو بجائے اللہ کا شکر ادا کرنے کے ان پر اکڑ جاتا ہے اور خود کو اس کا اہل سمجھنا شروع کردیتا ہے چونکہ یہ سخت ترین گناہ اور ایسا جرم ہے جس پر ابلیس بھی رد ہوا لہذا وہ کوشش کرتا ہے کہ جو آدمی بھی قابو آئے اسے اسی گناہ میں مبتلا کرے تاکہ وہ ہلاکت و بربادی میں اس کا ساتھی بن جائے اگر غور کریں تو دنیا میں سب خرابیوں کی جڑ ہی جملہ ہے۔ انا خیر منہ۔ میں اس سے بہتر ہوں۔ اعاذنا اللہ منہا۔ اور اس پر دلیل یہ دی کہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا فرمایا اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے۔ جاہل کہیں کا یہ کیسے ثابت ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے لیکن اس بحث کی ضرورت بھی کیا ہے جب خود یہ اقرار کر رہا ہے کہ خالق آپ ہی ہیں آپ ہی نے مجھے آگ سے اور انہیں مٹی سے پیدا فرمایا ہے تو یہ کیوں نہ جان سکا کہ حکم بھی تو وہی ہستی دے رہی ہے لہذا کون بہتر ہے اور کون نہیں وہ خوب جانتا ہے مگر تکبر جو اس کے اندر تھا اس نے اسے اندھا کردیا۔ تکبر کے باوجود ترقی ہوتی ہے مگر پائیدار نہیں : ارشاد ہوا یہاں سے یعنی آسمانوں سے نیچے چلے جاؤ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ ان رفعتوں پہ تکبر کا اظہار کرو نکل جاؤ کہ تم ذلیل ہو۔ یہی حال بعض طالبوں کا ہوتا ہے کسی شیخ کامل کی صحبت نصیب ہو تو مراقبات اور درجات روحانی طے کرتے جاتے ہیں اگرچہ اندر اپنی بڑائی کا خیال ہی چھپا ہوا و مگر ایسے لوگ آخر کار اظہار تکبر پر یک لخت گر کر تباہ ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی گمراہی اور تباہی کا سبب بنتے ہیں یاد رہے مخلصین کو گمراہ نہیں کرسکتے انہیں کو ساتھ ملاتے ہیں جن میں یہ مادہ ہو کہنے لگا اللہ مجھے یوم حشر تک زندہ رہنے دے تو اللہ نے ایک خاص وقت مہلت عطا فرما دی۔ اللہ قادر ہے دنیا میں کافر کی دعا بھی قبول کرلے تو اسے کوئی مانع نہیں مگر آخرت میں کافر کی دعا قبول نہ فرمائے گا یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے ابلیس نے تو حشر تک مہلت بخشی اور تھوڑی سی تبدیلی سے دعا قبول فرمائی حدیث شریف میں وضاحت ہے کہ جب دنیا فنا ہوگی یعنی پہلا نفخہ ہوگا تو ابلیس کو موت آئے گی۔ کافر کی دعا : کہنے لگا جس طرح تو نے مجھے گمراہ کردیا میں بھی تیری راہ میں ڈیرہ ڈالوں گا اور اولاد آدم (علیہ السلام) کو ہر طرف سے گھیرنے کی اور راستے سے بھٹکانے کی پوری کوشش کروں گا اور اے اللہ تو دیکھ لے گا کہ اکثر تیری ناشکری کریں گے اور میری بات مانیں گے۔ گناہ کی نسبت تقدیر کی طرف کرنا شیطانی کام ہے : فرمایا دفع ہوجا اور رد ہو کر تیرا ٹھکانہ تو جہنم ہے یہی جو تیری اطاعت کریں گے ان کو بھی تیرے ہمراہ کردوں گا یہ حالت تب ہوتی ہے جب گناہ سے دل سیاہ ہوجائے تو آدمی برائی کو تقدیر کا اثر بتا کر اللہ کے ذمہ کرنے لگتا ہے اور بارگاہ الہی میں شیطان کی طرح بےباک ہوجاتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا آپ اور آپ کی زوجہ مھترمہ دونوں جنت میں رہو اور جو چاہو کھاؤ پیو مگر اس ایک درخت کے قریب مت جانا ورنہ غلط کام کر بیٹھو گے۔ ابلیس کو یہ خبر تھی کہ اس غذا سے انسانی توالد و تناسل کے آلات اپنا کام کرنے لگیں گے اور ظاہر ہوجائیں گے جن سے ابھی آدم (علیہ السلام) آگاہ نہ تھے کمال قدرت دیکھئے جہان کی اشیاء کا علم عطا کردیا مگر اپنے وجود کے اسرار سے ابھی واقف نہ تھے لہذابلیس نے وسوسے القا کرنے شروع کردئیے اور کہنے لگا اگر تم یہ کھالو تو فرشتوں کی طرح ہوجاؤ گے اور یہیں ہمیشہ رہنے لگو گے پھر تمہیں زمین پر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی اس پر اللہ کی قسمیں دیں کہ صرف آپ کی بھلائی کے لیے کہہ رہا ہوں وہ دھوکے میں آگئے ان کے دل تو شفاف تھے وہ یہ بھی نہ کرسکے کہ کوئی جھوٹ پر بھی اللہ کی قسم کھا سکتا ہے مگر ابلیس کا دل سیاہ تھا ان کے سامنے قسمیں دیں تو جب انہوں نے وہ پھل چکھا ہی تھا کہ ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں تب وہ جنت کے بڑے بڑے پتوں سے جسم ڈھانپنے لگے تو ارشاد ہوا کیا اس پھل کے کھانے سے روکا نہیں گیا تھا اور یہ بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اگرچہ ان سے دھوکا ہوا مگر حکم الہی کے خلاف تو صادر ہوا تھا لہذا پکار اٹھے اے ہمارے پروردگار اے ہماری امیدوں کے مرکز ہم اپنی جانوں پہ زیادتی کرچکے اب اگر تیری رحمت و مغفرت ہمیں تھام نہ لے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں فرمایا ٹھیک ہے اب تم جاؤ زمین پہ رہو بسو وہیں تمہاری دنیا کی زندگی ہے اور وہیں تمہیں اور تمہاری نسل کو موت آئے گی لیکن یہ بات یاد رکھو کہ اب یہ دشمنی تمہارے درمیان چلتی رہے گی لہذا اس سے غافل نہ ہوجانا کہ تمہیں پھر سے زندہ ہو کر اپنی اس منزل یعنی جنت میں ہپنچنا ہے ایسا نہ ہو کہ دشمن انسانیت تمہیں پھر دھوکا دے کر ایسے افعال میں مبتلا کردے کہ اصل راہ سے بھٹک کر منزل سے محروم ہوجاؤ ۔ خطاب اگر آدم (علیہ السلام) کو ہے مگر مراد ساری نسل آدم ہے۔
Top