Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ
: اور البتہ
خَلَقْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں پیدا کیا
ثُمَّ
: پھر
صَوَّرْنٰكُمْ
: ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی
ثُمَّ قُلْنَا
: پھر ہم نے کہا
لِلْمَلٰٓئِكَةِ
: فرشتوں کو
اسْجُدُوْا
: سجدہ کرو
لِاٰدَمَ
: آدم کو
فَسَجَدُوْٓا
: تو انہوں نے سجدہ کیا
اِلَّآ
: سوائے
اِبْلِيْسَ
: ابلیس
لَمْ يَكُنْ
: وہ نہ تھا
مِّنَ
: سے
السّٰجِدِيْنَ
: سجدہ کرنے والے
ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورت بنائی۔
9
پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ ابلیس
10
نے سجدہ نہ کیا۔
9
تخلیق آدم اور نظریہ ارتقاء :۔ اس آیت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کے حکم سے پہلے ہی انسانوں کی تخلیق ہوچکی تھی اور شکل و صورت بھی بنادی گئی تھی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت سیدنا آدم (علیہ السلام) کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کی ارواح پیدا کی گئی تھیں اور ان روحوں کو وہی صورت عطا کی گئی تھی جو اس دنیا میں آنے کے بعد اس روح کے جسم کی ہوگی اور انہیں ارواح ہی سے اللہ تعالیٰ نے عہد آیت (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ
172
ۙ )
7
۔ الاعراف :
172
) لیا تھا۔ جسم میں روح کی یا روح کے جسم میں موجود ہونے کی مثال یوں دی جاتی ہے جیسے زیتون کے درخت میں روغن زیتون یا کوئلہ میں آگ یا جلنے والی گیس۔ اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو اپنی تمام اولاد کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہاں کم کی ضمیر بطور جمع مذکر مخاطب استعمال ہوئی ہے یعنی اس وقت صرف سیدنا آدم (علیہ السلام) کو بنا کر پھر اسے صورت عطا کر کے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا۔ اس مقام پر یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے قائل ہیں اور انسان کو اسی ارتقائی سلسلہ کی آخری کڑی قرار دیتے ہیں وہ اسی آیت سے اپنے نظریہ کے حق میں استدلال کرتے ہیں اور ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے بنی نوع انسان موجود تھی کیونکہ آدم کو ملائکہ کے سجدہ کا ذکر بعد میں ہوا ہے۔ نیز اسی سورة کی اگلی آیات (
11
سے
25
تک) کی طرف توجہ دلاتے ہیں جہاں کہیں تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے لیے تثنیہ کا صیغہ آیا ہے لیکن اکثر مقامات پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا ایک جواب تو اوپر دیا جا چکا ہے کہ آدم کے سجدہ کرنے سے پیشتر ارواح کی تخلیق کی گئی۔ انہیں صورتیں دی گئیں اور انہی سے وعدہ الست لیا گیا تھا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے اور ان حضرات کے لیے دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ سورة اعراف کی ان آیات کے ساتھ سورة بقرہ کی آیات نمبر
30
تا
36
دوبارہ ملاحظہ فرما لیں تو اس تثنیہ کے صیغہ کی حقیقت از خود معلوم ہوجائے گی۔ نیز اس مقام پر ابتداء میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی اتباع کرو۔ پھر آگے چل کر آدم (علیہ السلام) ، آپ کی بیوی اور ابلیس وغیرہ کا قصہ مذکور ہے، تو قرآن میں حسب موقع و محل صیغوں کا استعمال ہوا ہے ان آیات کے مخاطب آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے آباؤ اجداد یا بھائی بند۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا پھر اس سے حوا (علیہا السلام) کو پیدا کیا پھر انہیں جنت میں آباد کیا۔ اگر آدم سلسلہ ارتقاء کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے تو اس وقت ان کے آباؤ اجداد یا بھائی بند کہاں تھے ؟ اب چونکہ اس مسئلہ ارتقاء کے قائلین کی بحث چھڑ ہی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دوسرے قرآنی دلائل کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے۔ دوسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی دوسری دلیل سورة نساء کی پہلی آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ لوگو ! اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلائے۔ (
4
:
1
) یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم (علیہ السلام) اور ان کے زوج سے مراد ان کی بیوی حوا (علیہا السلام) ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحدہ سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں جو سمندر کے کنارے کائی سے پیدا ہوا تھا۔ اس جرثومہ حیات کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کردو ٹکڑے ہوگیا پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا بڑا ہو کر پھر کٹ کردو دو ٹکڑے ہوتا گیا اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی جو جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔ یہ دلیل اس لحاظ سے غلط ہے کہ آیت (خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً )
4
۔ النسآء :
1
) کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ نسل توالد و تناسل کے ذریعہ سے چلی تھی جبکہ جرثومہ حیات کی صورت یہ نہیں ہوتی آج بھی جراثیم کی پیدائش و افزائش اسی طرح ہوتی ہے کہ ایک جرثومہ کٹ کردو حصے بن جاتا ہے اسی طرح افزائش تو ہوتی چلی جاتی ہے مگر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہوتا لہذا وہ ایک جرثومہ کے دو ٹکڑے تو کہلا سکتے ہیں زوج نہیں کہلا سکتے۔ تیسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی تیسری دلیل سورة علق کی دوسری آیت ہے کہ اللہ نے انسان کو علق سے پیدا کیا (
96
:
4
) علق کے لغوی معنی جما ہوا خون یا خون کی پھٹکی بھی ہے اور جونک بھی۔ ہمارے یہ دوست اس سے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں اور اسے رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ اس سے ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے اور کہتے ہیں کہ انسان بھی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔ اس اشکال کو کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائی زندگی کے سفر کی داستان ہے سورة مومنوں کی آیت
14
دور کردیتی ہے جو یہ ہے۔ پھر ہم نے نطفہ سے علقۃ (لوتھڑا، جما ہوا خون، خون کی پھٹکی) بنایا پھر لوتھڑے سے بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس انسان کو نئی صورت میں بنادیا تو اللہ سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔ (
23
:
14
) انسان کی پیدائش کے یہ تدریجی مراحل صاف بتلا رہے ہیں کہ یہ رحم مادر میں ہونے والے تغیرات ہیں کیونکہ ارتقائے زندگی کے مراحل ان پر منطبق نہیں ہوتے۔ نیز یہ بھی کہ قرآن کریم نے علق سے مراد جما ہوا خون ہی لیا ہے۔ اس سے ارتقائی مراحل کی جونک مراد نہیں۔ اب ہم اپنی طرف سے نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چند دلائل پیش کرتے ہیں :۔ پہلی دلیل مراحل تخلیق : قرآن نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔ (
1
) تراب بمعنی خشک مٹی (
40
:
17
) ۔ (
2
) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (
71
:
17
) (
3
) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (
6
:
2
) ۔ (
4
) طین لازب (
37
:
11
) ۔ (
5
) آیت (حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
26
ۚ )
15
۔ الحجر :
26
) بمعنی بدبودار کیچڑ (
15
:
16
) ۔ (
6
) صلصال بمعنی ٹھیکرا، حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (
15
:
16
) ۔ (
7
) آیت (صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ
14
ۙ )
55
۔ الرحمن :
14
) یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (
55
:
14
) یہ ساتوں مراحل بس جمادات ہی میں پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ بھی پوری طرح خشک کردیا گیا۔ غور فرمائیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ سب کے سب ایک ہی نوع (جمادات) سے متعلق ہیں ان میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے ؟ اگر انسان کی تخلیق نباتات اور حیوانات کے راستے سے ہوتی تو ان کا بھی کہیں تو ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سیدنا آدم کی تخلیق میں دو باتیں خصوصی نوعیت رکھتی ہیں ایک یہ کہ سیدنا آدم کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور قرآن کے الفاظ آیت (لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ
75
)
38
۔ ص :
75
) اس کا ثبوت ہیں اور دوسرے پتلا تیار ہوجانے کے بعد اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے روح سے پھونکنا جس کی وجہ سے انسان میں قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل پیدا ہوئی جو دوسرے کسی جاندار میں نہیں ہے ہمارے یہ دوست عموماً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مراد دست قدرت یا قوت لے لیا کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات تو صرف یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت اور قوت ہی سے پیدا کیا ہے پھر صرف آدم کی تخلیق سے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ دوسرے انسان میں جو قوت ارادہ و اختیار ہے وہ تسلسل ارتقاء کی صورت میں کب اور کیسے پیدا ہوگئی ؟
9
ہجری میں نجران کے عیسائی مدینہ میں آپ سے مناظرہ کرنے آئے۔ موضوع الوہیت مسیح تھا۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ جب تم مسلمان خود تسلیم کرتے ہو کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو بتاؤ کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اس دوران یہ آیت نازل ہوئی اللہ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم (علیہ السلام) کی سی ہے آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہوجا تو آدم ایک جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ (
3
:
59
) یعنی عیسائیوں کو جواب یہ دیا گیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر آدم الوہیت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی مگر انہیں تم اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں کہتے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے اللہ یا اس کا بیٹا ہوسکتے ہیں ؟ الوہیت مسیح کی تردید میں یہ دلیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی تھی کہ عیسیٰ کے بن باپ پیدا ہونے میں عیسائی اور مسلمان دونوں متفق تھے لیکن آج مسلمانوں کا ایک طبقہ تو ایسا ہے جو معجزات کا منکر ہے وہ آدم (علیہ السلام) کی بغیر ماں باپ پیدائش کو تو تسلیم کرتا ہے مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسرا فرقہ قرآنی مفکرین کا وہ ہے جو ارتقائی نظریہ کے قائل ہونے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کی بھی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ مندرجہ بالا آیت میں ان فرقوں کا رد موجود ہے وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے، جس کی ممکنہ صورتیں یہ ہوسکتی ہیں۔
1
۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے یہ توجیہ اس لیے غلط ہے کہ تمام بنی نوع انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ کی (علیہ السلام) کوئی خصوصیت نہیں۔
2
۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ سے ہوئی یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ انسان کی پیدائش کے لیے یہ عام دستور ہے آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں کہ اللہ صرف ان دونوں کی پیدائش کو ایک دوسرے کی مثل قرار دیتے۔ لامحالہ دونوں کی پیدائش غیر فطری طریق سے ہوئی۔
3
۔ اب تیسری صورت صرف یہ باقی رہ جاتی ہے کہ دونوں کے باپ کا نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں گویا یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے (نظریہ ارتقاء کی مزید تفصیلات کے لیے سورة حجر کی آیت نمبر
39
کا حاشیہ نمبر
19
اور اس کے علاوہ میری تصنیف عقل پرستی اور انکار معجزات ملاحظہ فرمائیے۔
10
ابلیس کی حقیت سمجھنے کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت نمبر
34
کا حاشیہ نمبر
47
)
Top