Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ
: اور البتہ
خَلَقْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں پیدا کیا
ثُمَّ
: پھر
صَوَّرْنٰكُمْ
: ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی
ثُمَّ قُلْنَا
: پھر ہم نے کہا
لِلْمَلٰٓئِكَةِ
: فرشتوں کو
اسْجُدُوْا
: سجدہ کرو
لِاٰدَمَ
: آدم کو
فَسَجَدُوْٓا
: تو انہوں نے سجدہ کیا
اِلَّآ
: سوائے
اِبْلِيْسَ
: ابلیس
لَمْ يَكُنْ
: وہ نہ تھا
مِّنَ
: سے
السّٰجِدِيْنَ
: سجدہ کرنے والے
اور ہمیں نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت و شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو۔ تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس۔ کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا۔
آیت نمبر 11 تا 25 ترجمہ : اور ہم نے تم کو یعنی تمہارے دادا آدم کو پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں یعنی تمہاری صورتیں اس حال میں بنائیں کہ تم آدم (علیہ السلام) کی پشت میں تھے، پھر ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، جھک کر سجدہ تعظیمی، تو سب نے سجدہ کیا بجز ابو الجن ابلیس کے اور وہ فرشتوں کے درمیان بودوباش رکھتا تھا، اور وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کس چیز نے تجھ کو سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا، لا، زائدہ ہے، (تو) کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں (اسلئے کہ) تو نے مجھے آگ سے اور اسکو مٹی سے پیدا کیا، حق تعالیٰ نے فرمایا تو جنت سے اتر اور کہا گیا ہے کہ آسمانوں سے اتر، تجھ کو کوئی حق نہیں کہ تو آسمانوں (یا جنت) میں رہ کر تکبر کرے، لہٰذا تو اس سے نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے، (ابلیس) نے کہا مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن لوگ اٹھائے جائیں حق تعالیٰ نے فرمایا تجھے مہلت ہے، اور دوسری آیت میں ہے وقت مقرر تک یعنی نفخہ اولیٰ تک، تو (ابلیس) نے کہا قسم ہے مجھے تیرے اغوا کرنے کی باء قسم کے لئے ہے میں ان کے یعنی بنی آدم کیلئے تیری سیدھی راہ پر (یعنی) اس راہ پر جو تجھ تک پہنچانے والی ہے بیٹھوں گا، اور اس کا جواب لَاَقْعُدنَّ ہے، پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے یعنی ہر جہت سے ان کو راہ راست پر چلنے سے روکوں گا ابن عباس نے فرمایا لوگوں کے اوپر سے آنی کی استطاعت نہیں رکھتا تاکہ وہ بندے اور اللہ کی رحمت کے درمیان حائل نہ ہوجائے اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گذار (یعنی) مومن نہ پائیں گے اللہ نے فرمایا تو یہاں سے معیوب مغضوب مردود ہو کر نکل جا، انسانوں میں سے جو تیری پیروی کرے گا اور لام ابتداء ہے یا قسم کی تمہید کے لئے ہے (یعنی قسم محذوف پر دلالت کرنے کے لئے) وہ لَاملئنَّ ہے، میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا، یعنی تجھ سے مع تیری ذریت کے اور انسانوں سے (جہنم کو بھر دوں گا) اس میں حاضر کو غائب پر غلبہ دیا گیا ہے، اور جملہ (لأملئنَّ ) میں مَنْ شرطیہ کی جزاء کے معنی ہیں، یعنی جو تیری اتباع کرے گا میں اس کو عذاب دوں گا، اور (اللہ نے) فرمایا اے آدم تم اور تمہاری بیوی حواء مد کے ساتھ (انت) اُسکن کے اندر ضمیر مستر کی تاکید ہے تاکہ اس پر عطف کیا جاسکے، جنت میں رہو، جہاں سے جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ اور کھانے کی نیت سے اس درخت کے قریب بھی مت جانا اور وہ شجر گندم ہے ورنہ تو تمہارا شمار ظالموں میں ہوجائیگا، پھر شیطان ابلیس نے ان دونوں کو بہکایا تاکہ ان دونوں کی شرم گاہوں کو جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ظاہر کر دے (وُوْرِی) المواراۃ سے فُوعِلَ کے وزن پر ماضی مجہول ہے اور کہا تم دونوں کو اس درخت سے دور کرنے کی بجز اس کے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو تمہارا فرشتہ ہوجانا ناپسند ہے اور (ملِکین) کا لام کے کسرہ کے ساتھ (بھی) پڑھا گیا ہے یا یہ کہ تم دونوں ہمیشہ کے لئے جنتی ہوجاؤ اسلئے کہ یہ (خلود) اس کے کھانے کے لئے لازم ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے (ھَلْ اَدُلُّک علی شجرۃ الخلد وَمُلکٍ لا یبلیٰ ) اور ان دونوں کے روبرو اللہ کی قسم کھائی کہ میں اس معاملہ میں یقیناً تم دونوں کا خیر خواہ ہوں سو ان دونوں کو ان کے مقام سے فریب کے ذریعہ نیچے لے آیا، ان دونوں نے جب درخت کو چکھا یعنی اس کا پھل کھایا تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھل گئیں، یعنی ان میں ہر ایک کی قبل اور دوسرے کی قبل اور اس کی دبر ظاہر ہوگئی، اور دونوں کی شرمگاہوں کا سوأۃ نام رکھا اسلئے کہ شرمگاہ کا کھل جانا صاحب شرمگاہ کو رنجیدہ کرتا ہے، اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتوں کو چپکانے لگے، یعنی دونوں نے اپنی شرمگاہوں پر پتوں کو چپکانا شروع کردیا، تاکہ ان کے ذریعہ ستر پوشی کریں، اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے کھلی عداوت والا ہے، یہ استفہام تقریری ہے دونوں نے کہا اے رب ہم نے معصیت کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کیا، اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہمارے اوپر رحم نہ کرے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے اللہ نے حکم دیا اے آدم و حواء تم مع اپنی ذریت کے جس پر تم مشتمل ہو نیچے اتر و تمہاری ذریت میں سے بعض بعض کی دشمن ہوگی بعض کے بعض پر ظلم کرنے کی وجہ سے، اور تمہارے لئے زمین جائے سکونت ہے اور ایک مدت تک (اس میں) نفع حاصل کرنا ہے تم مدت العمر وہیں رہو گے، فرمایا تمہیں زمین ہی پر زندگی بسر کرنی ہے اور وہیں مرنا ہے اور زندہ کرکے تمہیں وہیں سے نکالا جائیگا (تخرجون) میں معروف و مجہول دونوں ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ای اباکم آدم۔ سوال : خلقنٰکم میں خطاب بنی آدم کو ہے جس سے معلوم ہوتا ہے خلق و تصویر کا تعلق بنی آدم سے ہے حالانکہ خلقنٰکم کی تفسیر اَیْ اَباکم آدم سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق و تصویر کا تعلق آدم (علیہ السلام) سے ہے۔ جواب : یہ ہے کہ چونکہ آگے ملائکہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آدم کو سجدہ کریں اگر خلقنٰکم میں کُم سے مراد آدم (علیہ السلام) نہ ہوں تو تخلیق اور امر بالسجدہ میں مطابقت باقی نہیں نہ رہے گی یعنی تخلیق بیان ہو رہی ہے ذریۃً کی اور اس کا انعام دیا جا رہا ہے آدم (علیہ السلام) کو اسی شبہ کو دور کرنے کے لئے مضاف محذوف ماننے کی ضرورت پیش آئی۔ قولہ : کَانَ بَیْنَ المَلاَئِکَۃِ ۔ سوال : اس عبارت کے اضافہ کا کیا مقصد ہے ؟ جواب : مذکورہ اضافہ کا مقصد اِلاَّ ابلیس کے استثناء کو درست قرار دینا ہے۔ سوال : اِلاَّ ابلیس ہی سے ابلیس کا سجدہ نہ کرنا مفہوم ہو رہا ہے پھر لم یکن من الساجدین کہنے سے کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اِلاَّ ابلیس سے مطلق سجدہ کی نفی مفہوم نہیں ہوتی بلکہ صرف بوقت حکم سجدہ کی نفی مفہوم ہو رہی ہے ممکن ہے کہ اس وقت سجدہ نہ کیا ہو مگر بعد میں کرلیا ہو، جب لم یکن من الساجدین کا اضافہ ہوگیا تو اس سے مطلق سجدہ کی نفی ہوگئی یعنی ابلیس نے نہ بوقت حکم سجدہ کیا اور نہ بعد میں۔ قولہ : زائدۃ، یعنی اَلاَّ میں لا زائدہ ہے ورنہ تو مطلب ہوگا سجدہ کرنے سے منع کیا اسلئے کہ نفی النفی اثبات ہوتا ہے حالانکہ یہ مقصد نہیں قولہ : أَخِّرْنِی، انظرنی کی تفسیر اَخِّرنی سے کرکے اشارہ کردیا کہ، انظرنی بمعنی انتظار ہے نہ کہ بمعنی رؤیت ورنہ تو معنی فاسد ہوجائیں شبہ : شبہ یہ ہے کہ ابلیس نے انظرنی الی یوم یُبْعَثُوْنَ کہہ کر نفخہ ثانیہ تک زندہ رہنے کی اجازت طلب کی اور اس کے بعد موت نہیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اِنَّکَ مِنَ المُنظرین کہہ کر ابلیس کی درخواست منظور فرمالی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابلیس موت سے محفوظ ہوگیا اس پر موت طاری نہیں ہوگی اسلئے کہ نفخہ اولی سے پوری کائنات پر فنا طاری ہوگی اور نفخہ ثانیہ سے پوری کائنات زندہ ہوجائے گی چونکہ ابلیس نے نفخہ ثانیہ تک زندہ رہنے کی اجازت طلب کی تھی جو کہ منظور بھی ہوگئی اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کے قول انک مِنَ المنظرین سے یہی مفہوم ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ اِنّکَ مِنَ المنظرین سے اگرچہ مطلقاً ابلیس کی درخواست کو قبول کرنا معلوم ہوتا ہے مگر دوسری آیت میں معلوم ہوتا ہے کہ مراد نفخہ اولی ہے جو کہ نفخہ فنا ہے لہٰذا معلوم ہوگیا کہ ابلیس بھی فنا ہونے والوں میں شامل ہوگا۔ قولہ : مَذْؤمًا بالھمزۃ بمعنی معیوباً ایک قراءت میں مذمومًا بھی ہے۔ قولہ : وَاللام للابتداء لَمَنْ تبعکَ میں لام ابتدائیہ تاکید کیلئے ہے۔ قولہ : وفِی الْجُمْلَۃِ مَعْنَی الْجَزَاءِ یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ لَمَنْ تبِعَکَ شرط بغیر جزاء کے ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ جملہ لاملئنَّ قائم مقام جزاء ہے لہٰذا شرط بدون الجزاء کا اعتراض ختم ہوگیا۔ سوال : مذکورہ جملہ کو قائم مقام جملہ جزاء قرار دینے کے بجائے جزاء قرار کیوں نہیں دیا ؟ جواب : جملہ فعلیہ جب جزاء واقع ہوتا ہے تو اس پر لام داخل نہیں ہوتا اور یہاں لام داخل ہے اسی لئے اس جملہ کو جزاء قرار دینے کے بجائے قائم مقام جزاء قرار دیا ہے۔ (ترویح الارواح) قولہ : اَوْ موطئۃً للقسم یعنی لام قسم محذوف پر دلالت کرنے کیلئے ہے اور وہ لاَ ملئنَّ الخ ہے ای اقسم لا ملئنَّ الخ۔ قولہ : وُوْرِیَ (بروزن) فُوْعِلَ مِنَ الموارۃ، اس میں ایک سوال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔ سوال : جب اول کلمہ میں دو داؤ جمع ہوجاتے ہیں اور ان میں اول مضموم ہو تو اول کو ہمزہ سے بدلنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ وُوَیْصِلٌ میں جو کہ واضِلٌ کی تصغیر ہے پہلے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر اُوَیْصِلٌ کردیا۔ جواب : یہ قاعدہ ان دو واؤ میں ہے جو متحرک ہوں تاکہ چقل کو کم کیا جاسکے، اور یہاں ثانی واؤ ساکنہ ہے لہٰذا یہاں یہ قاعدہ جاری نہ ہوگا قولہ : حطّھما، یہ تفسیر لازم معنی کو بیان کرنے کیلئے ہے اسلئے کہ تدلیہ ارسال الشئ من اعلی الی اسفل کو کہتے ہیں۔ قولہ : ای آَدْمُ و حَوَّاءُ بما اشتَمَلْتُمَا الخ، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ اھبطوا جمع کا صیغہ ہے حالانکہ اس کے مخاطب آدم (علیہ السلام) و حواء صرف دو فرد ہیں لہٰذا اِھْبطا ہونا چاہیے تھا، جواب کا حاصل یہ ہے کہ مراد حضرت آدم و حواء مع انکی ذریت ہیں لہٰذا کوئی شبہ نہیں تفسیر و تشریح ولقد خلقنٰکم، خلَقنٰکم میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے مگر مراد اس سے ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں حضرت آدم چونکہ اپنی پوری ذریت پر مشتمل ہیں اور ابو البشر ہیں اسی وجہ سے جمع کی ضمیر سے خطاب فرمایا، اخفش نے کہا ہے کہ ثمَّ صورنا کم میں ثم بمعنی واؤ ہے، اَلاَّ تسجدَ میں لا زائدہ ہے ای اَنْ تسجدَ ، (تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا، یا عبارت محذوف ہے یعنی تجھے کس چیز نے اس بات پر مجبور کیا کہ تو سجدہ نہ کرے (ابن کثیر، فتح القدیر) اور کہا گیا ہے کہ مَنَعَ بمعنی قال ہے الی من قال لک ان لا تسجد اور کہا گیا ہے کہ مَنَعَ بمعنی دعا ہے ای ما دَعٰک اِلیٰ اَن لاتسجد، شیطان فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود قرآن کی صراحت کے مطابق جنات میں سے تھا (الکہف) لیکن آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سجدہ کے حکم میں شامل تھا جو اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا اسی لئے اس سے سجدہ نہ کرنے پر باز پرس ہوئی، اگر وہ اس حکم میں شامل نہ ہوتا تو اس سے باز پرس نہ ہوتی اور نہ وہ راندہ درگاہ ہوتا۔ انسانی تخلیق کا قرآنی نظریہ : مذکورہ آیت سے تخلیق ابو البشر کی جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے پہلے ابو البشر کی تخلیق کا منصوبہ بنایا، اور مادہ آفرینش تیار کیا، پھر اس مادہ کو انسانی صورت بخشی، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اس کو سجدہ کرنے کے لئیے فرشتوں کو حکم دیا، اس آیت کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقام پر بیان کی گئی ہے، مثلاً سورة ص میں ہے، ” اِذ قال رَبُّکَ للملئِکۃ اِنی خالق بشراً من طین فاِذَا سَوّیتہٗ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سٰجدین “ اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کئے گئے ہیں، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق پھر اس کی شکل و صورت اور اعضاء میں تسویہ و اعتدال قائم کرنا پھر اس کے اندر اپنی روح پھونکنا اگرچہ تخلیق انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ کما حقہ ہمارے لئے سمجھنا مشکل ہے، اور نہ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک کرسکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈارون کے متبعین نظریہ ارتقاء کو سائنس کے نام پر پیش کرتے ہیں، ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی یا نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے، اور اس ارتقاء کے طویل خط میں کہیں کوئی نقطہ خاص نظر نہیں آتا کہ جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دیکر نوع انسانی کا نقطہ آغاز تسلیم کیا جائے، اس کے برخلاف قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت سے ہوا، اس کی تاریخ قطعاً کسی غیر انسانی تاریخ سے کوئی رشتہ نہیں رکھتی وہ اول روز سے انسان بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ اس کی ارضی زندگی کی ابتداء کی تھی۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی حقیقت : اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ قرآنی تصور انسان چاہے اخلاقی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایسے نظریہ کو کس طرح رد کیا جاسکتا ہے کہ جو سائنٹفک دلائل سے ثابت ہے، لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ڈارونی نظریہ ارتقاء سائنٹفک دلائل سے ثابت ہوچکا ہے ؟ سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والا تو بیشک اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ ڈارونی نظریہ ایک ثابت شدہ حقیقت بن چکا ہے، لیکن محققین اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ الفاظ کے لمبے چوڑے دعوؤں اور ہڈیوں کے عجیب و غریب ڈھانچوں کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے، اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جاتا ہے وہ دراصل محض دلائل امکان ہیں۔
Top