Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور ہم نے ہی تم کو شروع میں مٹی سے پیدا کیا پھر تمہاری شکل و صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو۔ تو سب نے سجدہ کیا لیکن۔ ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
تخلیق آدم پر ابلیس کا مکالمہ تشریح : ان آیات کا ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے اور ان کی عبارت بڑی عام فہم اور آسان ہے، لہٰذا صرف وہ نکات بیان کئے جائیں گے جو خاص خاص ہیں۔ -1 انسان کے رہنے، کھانے اور پینے کا بندوبست جو اللہ رب العزت نے کیا ہے لاجواب ہے۔ مگر انسان ناشکرا ہے۔ -2 انسان کی پیدائش کا معجزہ جو تمام موجودہ تحقیقات کو غلط ثابت کرتا ہے خاص طور سے ڈارون کی تھیوری کہ انسان بندر سے موجودہ شکل میں آیا ہے۔ اللہ کی قدرت کاملہ اور بےمثال طاقت کا مظاہرہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کی پیدائش ہے۔ -3 انسان کا بلند درجہ کہ جس کی وجہ سے وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ اور تمام مخلوقات سے افضل مخلوق بنائی گئی۔ فرشتوں سے بلند مرتبہ انسان کا بنایا گیا ہے۔ -4 غرور، تکبر اور نافرمانی کسی صورت بھی اللہ کو پسند نہیں چاہے کرنے والا کتنا ہی بڑا مقبولِ الٰہی ہستی کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال ابلیس کے قصہ سے ظاہر کردی گئی ہے۔ کسی شخص کو زندگی کے کسی موڑ پر کسی صورت میں بھی تکبر کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اس کی سزا بڑی سخت ہے۔ -5 شیطان کا دعویٰ کہ وہ ہر انسان کو نیکی سے بدراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ قیامت تک وہ ہر شخص کے ساتھ کوشش کرتا رہے گا۔ مگر مضبوط اور پکے مسلمان اس کی گرفت میں ہرگز نہیں آسکتے۔ جیسا کہ سیدنا ایوب ؓ کی زندگی کے حالات سے پتہ چلتا ہے۔ اللہ نے ان کو ہر قسم کی دنیاوی نعمتیں دے رکھی تھیں پھر سب کچھ چھین لیا سوائے اللہ کے کوئی بھی سہارا نہ رہاوہ پھر بھی اللہ کا شکر ہی ادا کرتے رہے۔ جس کے بدلے میں اللہ نے اپنی قدرت سے ان کی تمام مشکلات دور کردیں اور مال، اولاد، مویشی، صحت، عزت اور سکون پہلے سے بھی زیادہ دیا۔ توکل علی اللہ کی یہ خوبصورت مثال ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں سب کو ایسے ہی ایمان کامل کی توفیق دے۔ -6 آخری بات جو سمجھائی گئی وہ یہی ہے کہ صبح اٹھنے سے رات سونے تک ہر ہر لمحہ اور ہر ہر قدم پر انسان کے لیے برائیوں اور گناہوں کے بیشمار مواقع موجود ہیں۔ مثلاً ریا، غرور، غصہ، بدگمانی، حسد، منافقت، جھوٹ، جھوٹی قسم، غیبت، افواہیں پھیلانا، طعنہ زنی، لالچ، خیانت، چوری، سودخوری، رشوت، ذخیرہ اندوزی، بخل، ظلم، قتل، شراب خوری، خودکشی اور بےصبری وغیرہ ان تمام رذائلِ اخلاق (اخلاقی برائیاں) کو بڑی وضاحت سے بیان کیا جا چکا ہے۔ اگر ان کو غور سے دیکھیں تو ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے اور انسان کی ہر عمر سے ہے۔ اور یہ اس قدر اہم تعلق ہے کہ کردار کی مضبوطی اور کردار کی پاکیزگی ہی قوموں اور ملکوں کی ترقی اور سلامتی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انسان اگر شیطان کے قبضہ میں آکر اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوجائے تو وہ نہ صرف خود ہی عذاب میں پڑتا ہے بلکہ اپنے ساتھ ملک و قوم کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ اسی لیے رب العالمین نے صاف اعلان کردیا کہ شیطان اور اس کے کہنا ماننے والوں کو ضرور جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اور ویسے بھی ایک شیطان فطرت انسان دنیا میں پرسکون اور پروقار نہیں ہوسکتا۔ آخرت میں سزا الگ ہے۔
Top