Tafseer-e-Baghwi - Ar-Ra'd : 6
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالسَّيِّئَةِ : برائی (عذاب) قَبْلَ الْحَسَنَةِ : بھلائی (رحمت) سے پہلے وَ : اور حالانکہ قَدْ خَلَتْ : گزر چکی ہیں مِنْ : سے قَبْلِهِمُ : ان سے قبل الْمَثُلٰتُ : سزائیں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَذُوْ مَغْفِرَةٍ : البتہ مغفرت والا لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلٰي : پر ظُلْمِهِمْ : ان کا ظلم وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ : البتہ سخت عذاب دینے والا
اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے جلد خواستگار (یعنی طالب عذاب ہیں) حالانکہ ان سے پہلے عذاب (واقع) ہوچکے ہیں۔ اور تمہارا پروردگار لوگوں کو باوجود انکی بےانصافیوں کے معاف کرنے والا ہے اور بیشک تمہارا پروردگار سخت عذاب دینے والا ہے۔
6۔” ویستعجلونک بالسیئۃ قبل الحسنۃ “ استعجال کہا جاتا ہے کسی کام کو جلد یطلب کرنا یا مقررہ وقت سے پہلے کسی چیز کو طلب کرنا ۔ یہاں ” سیئۃ “ سے مراد سزا و عذاب ہے اور ” حسنہ “ سے مراد نعمت و عافیت یعنی مشرکین مکہ عافیت کی جگہ عذاب کے طالب تھے اور استہزاء کے طور پر کہتے تھے۔ اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دے یا ہم پر کوئی اور درد ناک عذاب بھیج دے۔” وقد خلت من قبلھم المثلات “ ان سے پہلے امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور رسولوں کو جھٹلایا ۔ اس وجہ سے ان کو سزائیں پڑیں۔ مثلات جمع ہے مثلہ کی ، میم کے فتحہ اور ثاء کے ضمہ کے ساتھ جیسے صدقہ اور صدقات جھٹلایا ۔ اس وجہ سے ان کو سزائیں پڑیں ، مثلات جمع ہے مثلہ کی ۔ میم کے فتحہ اور ثاء کے ضمہ کے ساتھ جیسے صدقہ اور صدقات ہے۔ ” وان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمھم وان ربک لشدید العقاب “۔
Top