Mafhoom-ul-Quran - Ar-Ra'd : 6
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالسَّيِّئَةِ : برائی (عذاب) قَبْلَ الْحَسَنَةِ : بھلائی (رحمت) سے پہلے وَ : اور حالانکہ قَدْ خَلَتْ : گزر چکی ہیں مِنْ : سے قَبْلِهِمُ : ان سے قبل الْمَثُلٰتُ : سزائیں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَذُوْ مَغْفِرَةٍ : البتہ مغفرت والا لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلٰي : پر ظُلْمِهِمْ : ان کا ظلم وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ : البتہ سخت عذاب دینے والا
اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے آپ سے برائی کے جلد خواستگار ہیں (طالب عذاب ہیں) ، حالانکہ ان سے پہلے (عذاب کی) مثالیں گزر چکی ہیں۔ اور آپ کا پروردگار لوگوں کو ان کی بےانصافیوں کے باوجود معاف کرنے والا ہے۔ اور بیشک آپ کا رب سخت عذاب دینے والا ہے۔
اللہ معاف کرنے والا اور سخت عذاب دینے والا ہے تشریح : اس آیت میں کفار مکہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو آپ پر ایمان لانے میں بےیقینی کا شکار ہوچکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا آپ بڑے ہی نیک سیرت انسان ہیں۔ اسی لیے آپ کو صادق (سچا) اور امین (امانتدار) کے ناموں سے پکارتے تھے۔ آپ کے پاس اپنی امانتیں رکھتے تھے۔ حجر اسود لگانے کا جھگڑا جب کھڑا ہوا تو آپ کے فیصلہ کو تمام اہل مکہ نے بخوشی قبول کیا۔ لیکن جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اہل مکہ حیران و پریشان ہوگئے کیونکہ آپ ﷺ کو جھٹلانا بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا اور آپ پر ایمان لانا بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا، لہٰذا وہ خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر دعائیں کرتے کہ ” یا اللہ ! اگر حضرت محمد ﷺ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دے، ہم پر عذاب نازل کر دے۔ “ تو اس کے جواب میں رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان لانے سے پہلے ہی عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب عذاب نازل ہوگیا اور یہ نیست و نابود ہوگئے تو پھر کیا فائدہ ہوگا۔ یہ تو ختم ہوچکے ہوں گے۔ ان کو چاہیے کہ ان گزری ہوئی قوموں کو دیکھیں جنہوں نے انبیاء کو جھٹلایا اور نافرمانی کی تو ان پر عذاب نازل کیے گئے جیسا کہ عاد، ثمود، فرعون وغیرہ ان سے پہلے عذاب سے تباہ ہوچکے ہیں۔ پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے توبہ کرلی تو وہ عذاب سے بچ گئی۔ اسی طرح ان کو بھی چاہیے کہ جو مہلت ان کو ملی ہے اس سے فائدہ اٹھائیں غور و فکر کریں اور ایمان لے آئیں۔ بیشک اللہ جل شانہٗ بڑا ہی مہربان ہے وہ ان کی تمام کوتاہیوں، گناہوں اور نافرمانیوں کو بالکل معاف کر دے گا۔ کیونکہ اللہ بڑا ہی مہربان ہے یہ اللہ کی صفت ہے اور اس کے رحمن و رحیم صفاتی نام ہیں وہ کبھی بھی عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ مگر جب کوئی قوم یا کوئی انسان حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر وہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے کیونکہ جہاں وہ رحمن و رحیم ہے وہاں وہ جبار وقہار بھی ہے۔ یہاں انسان کی اصلاح کے لیے بہترین اصول بیان کردیے گئے ہیں۔ تاکہ انسان اللہ کی رحمت کا امید وار ضرور رہے اور ساتھ ہی یہ بھی جان لے کہ اس کی رحمت حاصل کر کے اس قدر لاپرواہ اور بےخوف ہو کر برائی نہ کرنے لگے، وہ یاد رکھے کہ کفر و شرک اور نافرمانی پر اس دنیا میں اور دوسری دنیا میں موت کے بعد اس کو بیشک بڑا سخت عذاب دیا جائے گا۔ خوف، رحمت اور عذاب انسان کو ہر وقت ہر عمل میں یاد رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، حالانکہ جو کچھ تم کرتے ہو اسے سب کا علم ہے۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے تو ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “ ( سورة شور ٰی آیات 26 - 25 )
Top