Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ
تفسیر 26۔” وآت ذا القربیٰ حقہ “ اس سے مراد صلہ رحمی ہے اور اس سے مراد قرابت داری ہے ، اکثر مفسرین کا یہی قول ہے۔ حضرت علی بن حسین ؓ کا قول ہے کہ قربیٰ سے مراد رسول اللہ ﷺ کی قرابت ہے۔ ” والمسکین وابن السبیل ولا تبذر تبذیرا ً “ یعنی اپنے مال کو نافرمانی کے معاملے میں خرچ نہ کرو۔ مجاہد کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا سارا مال حق کے راستے میں خرچ کر دے تو اس کو تبذیر نہیں کہا جائے گا ۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے تبذیر کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ حق کے علاوہ راستے میں مال خرچ کرنا ۔ شعبہ کا قول ہے کہ میں محمد اسحاق کے ساتھ کوفہ کے راستے میں جا رہا تھا، سر راہ ایک دیوار چونے اور پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ملی ۔ ابو اسحاق نے کہا کہ حضرت عبد اللہ ؓ کے قول پر یہ تبذیر ہے حق کے راستے کے علاوہ مال کا خرچ کرنا ہے۔
Top