Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 81
فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا
فَاَرَدْنَآ : پس ہم نے ارادہ کیا اَنْ يُّبْدِ : کہ بدلہ دے لَهُمَا : ان دونوں کو رَبُّهُمَا : ان کا رب خَيْرًا : بہتر مِّنْهُ : اس سے زَكٰوةً : پاکیزگی وَّاَقْرَبَ : اور زیادہ قریب رُحْمًا : شفقت
تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی اور محبت میں زیادہ قریب ہو
(81)” فاردنا ان یبدلھما ‘ ‘ ابو جعفر، نافع اور ابو عمرد نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ اسی طرح سورة تحریم میں اور سور ۃ قلم میں اور دوسراے قراء نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور اس میں دونوں لغات جائز ہیں اور اس میں بعض حضرات نے یہ فرق بیان کیا کہ تبدیل عام ہے۔ نفس شئی کو ہی بدل دینا یا اس کی حالت کو بدل دینا دونوں کو تبدیل کہتے ہیں اور ابدال اصل شئی کو بدلنے کو کہتے ہیں۔ ” ربھما خیراً منہ زکاۃ “ اس کی اصلاح اور اس کا تقویٰ ۔ ” واقرب رحما “ ابن عامر، ابو جعفرو یعقوب نے حاء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرائے قراء کے نزدیک جزم پڑھا ہے۔ اس صورت میں یہ رحمت پر عطف ہوگا اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد رحم اور قرابت داری ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ بڑا صلہ رحم کرنے والا اور ماں باپ کا بڑا فرمانبردار، خدمت گزار۔ کلبی کا بیان ہے کہ اللہ نے اس لڑکے کے عوض اس کے والدین کو ایک لڑکی عطا فرمائی جس سے ایک پیغمبر نے نکاح کیا اور اس کے بطن سے ایک نبی پیدا ہوئے جس نے ایک امت کو ہدایت یافتہ بنادیا۔ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ اللہ نے والدین کو ایک لڑکی دس جس کی نسل سے ستر پیغمبر پیدا ہوئے۔ ابن جریج نے کہا کہ اس عوض اللہ نے ایک فرمانبردار مسلم لڑکا عنایت کیا۔ مطرف نے کہا کہ جب وہ لڑکا پیدا ہوا تھا تو اس کے ماں باپ خوش ہوئے تھے، پھر جب وہ قتل ہوگیا تو والدین کو غمہوا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو ماں باپ کی تباہی یقینی تھی۔ آدمی کو چاہیے کہ اللہ کے حکم پر راضی رہے۔ اللہ مومن کے لیے اگر ناگوار فیصلہ بھی کرتا ہے، تب بھی مومن کے لیے اس بات سے بہتر ہوتا ہے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
Top