Tafseer-e-Baghwi - Al-Muminoon : 13
ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪
ثُمَّ : پھر جَعَلْنٰهُ : ہم نے اسے ٹھہرایا نُطْفَةً : نطفہ فِيْ : میں قَرَارٍ مَّكِيْنٍ : مضبوط جگہ
پھر اس کو اس کو مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا
13۔ ثم جعلناہ نطفہ، یعنی وہ انسان جس کو ہم نے نطفہ سے بنایا۔ فی قرار مکین۔ ٹھہرنے کی جگہ اور وہ رحم مادر ہے۔ اور وہ ایک مقررہ مدت تک اس میں قرار پکڑتا ہے۔ ” ثم خلقنا النطفۃ علقۃ۔۔۔ تا۔۔ عظاما۔ ابن عامر اور ابوبکر کے نزدیک عظما پڑھا ہے ۔ فکسونا العظام ، ظاء کے سکون کے ساتھ واحد استعمال ہوتا ہے اور دوسرے قراء نے جمع کے صیغہ کے ساتھ نقل کیا ہے کیونکہ انسان کئی عظام پر مشتمل ہے۔ اس آیت میں ہر خلق پر چالیس دن کا وقفہ ہوتا ہے چالیس دن کے بعد یہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ فکسوناالعظام لحما، ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت کالباس چڑھایا ، ثم انشاناہ خلقا آخر۔ مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس ؓ مجاہد، شعبی ، عکرمہ، ضحاک اور ابوالعالیہ نے کا کہ خلقا آخر سے مراد ہے روح پھونکنا، قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد دانتوں اور بالوں کا اگ آنا۔ ابن جریج نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ کہ مکمل جوان ہونامراد ہے حسن نے کہا کہ نریامادہ ہونامراد ہے۔ عوفی کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ عنہماکاتفسیری قول نقل کیا ہے کہ ولادت کے بعد انسان کے تدریجی احوال مراد ہیں کہ پیدائش سے لے کردودھ پینے کے وقت تک اور اس کے بیٹھنے سے لے کرلیٹنے تک، چلنے سے عاقل مند ہونے تک کہ وہ کھائے پئے، یہاں تک کہ وہ حلم کی عمر تک پہنچ جائی اور پھر اس کے بعد ایک شہر سے دوسرے شہر گھومنا سب ہی انشاء خلق کی آخری صورتیں ہیں۔ فتبارک اللہ ، کہ وہی تعظیم اور ثنا کا مستحق ہے اسی طور پر کہ نہ اس پر زوال آیا ہے اور نہ آئے گا۔ احسن الخالقین ، وہ اچھی صورت بنانے والا اور اندازہ کرنے والا اور خلق لغت میں تقدیر (اندازہ ) کو کہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے ک ہبندے بھی بناتے اور اللہ بھی بناتا ہے اور اللہ سب بنانے والوں میں سے بہتر بناننے والا ہے جسیے کہاجاتا ہے ، رجل خالق ای صانع، وہ بنانے والا ہے۔ ابن جریج کا قول ہے کہ خالقین جمع کا صیغہ اس وجہ سے ذکر کیا کہ عیسیٰ کو بھی حضر ت آدم کی طرح پیدا کیا، انی اخلق لکم من الطین، یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نسبت کرکے کہا کہ وہ سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔
Top