Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 136
اُولٰٓئِكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَؕ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ جَزَآؤُھُمْ : ان کی جزا مَّغْفِرَةٌ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّھِمْ : ان کا رب وَجَنّٰتٌ : اور باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِھَا : اس کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَا : اس میں وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا اَجْرُ : اجر الْعٰمِلِيْنَ : کام کرنے والے
ایسے ہی لوگوں کا صلہ پروردگار کی طرف سے بخشش اور باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (اور) وہ ان میں ہمیشہ بستے رہیں گے اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے
(تفسیر) 136۔: (آیت)” والذین اذا فعلوا فاحشۃ “۔ ابن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ مؤمنین مسلمین نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم سے بنی اسرائیل ہی اللہ کی نظر میں زیادہ عزت والے تھے ، ان میں سے اگر کوئی رات کو گناہ کرلیتا تو وہ گناہ صبح کو اس کے دروازے کی چوکھٹ پر اس کا کفارہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ اپنا ناک یا کان کاٹ ڈال یا ایسا کرلے ، حضور ﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت تیھان تمار کے متعلق نازل ہوئی جس کی کنیت ابو معبد تھی ، اس کے پاس ایک خوبصورت عورت آئی یہ شخص کھجوروں کا کاروبار کرتا تھا ، اس عورت کو صحابی نے کہا کہ اندر کمرے میں جید کھجوریں پڑی ہیں ، چناچہ اس عورت کو لے کر وہ اپنے گھر گئے اور ان کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور بوسا دیا ، عورت نے کہا اللہ سے ڈر تیھان نے فورا اس کو چھوڑ دیا اور اس حرکت پر پشیمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قصہ عرض کردیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ مقاتل (رح) ، اور کلبی (رح) کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے دو آدمیوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا ، ان میں سے ایک انصاری تھا اور دوسرا ثقیف کا تھا ، ثقفی ایک مرتبہ جہاد پر گیا اور انصاری کو اپنے گھر کا نگران بنا لیا ، ایک روز انصاری نے ثقفی کے گھر والوں کے لیے گوشت خریدا اور فرماتے ہیں ثقفی کی بیوی نے جب انصاری سے گوشت لینا چاہا تو وہ عورت کے پیچھے پیچھے گھر آگیا اور اس کے ہاتھ کو چوم لیا ، پھر اس کو پشیمانی ہوئی اور واپس لوٹ آیا مگر خاک سر پر اڑاتا ہوا سرگرداں ہو کر جنگل کی طرف نکل گیا ، ثقفی جب لوٹ کر آیا اور انصاری استقبال کے لیے نہیں آیا تو اس نے اپنی بیوی سے انصاری کا حال پوچھا ، عورت نے کہا ایسے بھائیوں کی تعداد خدا زیادہ نہ کرے اور پوری حالت بیان کردی ، ادھر انصاری پہاڑوں اور جنگل میں گھومتا توبہ و استغفار کرتا پھر رہا تھا ، ثقفی نے انکی تلاش کی اور جب مل گیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس لے گیا تاکہ کوئی سکون اور کشائش کا اراستہ آپ کے پاس مل جائے ، انصاری نے قصہ عرض کردیا اور کہا کہ میں تباہ ہوگیا ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا تیرا برا ہو ، کیا تجھے معلوم نہیں کہ غازی کے سلسلے میں اللہ اتنی حمیت رکھتا ہے اتنی مقیم کے لیے نہیں رکھتا ، اس کے بعد یہ دونوں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، انہوں نے وہی جواب دیا جو حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے دیا تھا ، آخر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے مگر آپ نے بھی شیخین جیسا جواب دیا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت)” والذین اذا فعلوا فاحشۃ “۔ ایسی برائی جو اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والی ہو، فحش کا اصل قبح ہے اور حدود کا نکلنا جابر نے فرمایا کہ فاحشہ سے مراد زنا ہے ۔ (آیت)” اوظلموا انفسھم “۔ ظلم سے مراد زنا سے کم والا گناہ ، بوسہ معانقہ ، دیکھنا اور چھونا ہے ، مقاتل (رح) ، اور کلبی (رح) ، کہتے ہیں کہ فاحشہ زنا سے کم درجہ کا گناہ ہے ، بوسہ دینا یا چھونا یا اس کو دیکھنا یا ایسا فعل جو اس کے لیے حلال نہیں ، یا انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا نافرمانی کرکے ۔ بعض نے کہا کہ کبائر کا ارتکاب کیا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا چھوٹے گناہ کر کے ، بعض نے کہا کہ انہوں نے فاحشہ کا ارتکاب کیا قولا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا عملا ۔ (آیت)” ذکروا اللہ “ یاد کرو اللہ کی وعید کو کہ اللہ ان سے ضرور پوچھے گا ، مقاتل بن حیان (رح) ، فرماتے ہیں کہ گناہ کے وقت اللہ کا ذکر زبان سے کرو۔ (آیت)” فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ “۔ یا اللہ کے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا ہے ۔ (آیت)” ولم یصروا علی ما فعلوا “۔ اپنے گناہوں پر قائم نہ رہو اور نہ ہی ان پر ڈٹے رہو بلکہ توبہ ، اللہ کی طرف رجوع اور استغفار کرو ، اصرار کا معنی ہے کسی چیز کا ثابت قدم رہنا ، حسن بصری ل فرماتے ہیں کہ بندہ جان کر گناہ کرلے اور اس پر اصرار بھی کرے تو وہ اس وقت تک معاف نہیں ہوگا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے ۔ سدی (رح) فرماتے ہیں کہ اصرار خاموشی اور استغفار کو ترک کرنا ہے ۔ واقد عمری ابو نضرہ سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں مولی ابی بکر ؓ سے ملا اور میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے اس بارے میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں میں نے ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے استغفار کیا اس نے اصرار نہیں کیا خواہ دن میں لوٹ لوٹ کر ستر بار گناہ کیا ہو ۔ (آیت)” وھم یعلمون “۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، حسن (رح) ، مقاتل (رح) ، کلبی (رح) ، فرماتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ گناہ کرتے ہیں اور بعض نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ گناہوں پر اصرار نقصان دہ ہے ، ضحاک (رح) ، فرماتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ گناہوں کو بخشنے کا مالک ہے حسن بن فضل (رح) ، فرماتے ہیں وہ اس امر کو جانتے ہیں ، کہا ن کا ایک رب ہے جو گناہ معاف فرماتا ہے ۔ بعض نے کہا کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کے عفو سے بڑے نہیں ، بعض نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ استغفار طلب کریں تو ان کے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔
Top