Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 136
اُولٰٓئِكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَؕ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ جَزَآؤُھُمْ : ان کی جزا مَّغْفِرَةٌ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّھِمْ : ان کا رب وَجَنّٰتٌ : اور باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِھَا : اس کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَا : اس میں وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا اَجْرُ : اجر الْعٰمِلِيْنَ : کام کرنے والے
ایسے لوگوں کا بدلہ (اور انکی جزاء) ان کے رب (کی طرف) سے ملنے والی بخشش اور ایسی عظیم الشان جنتیں ہیں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان) نہریں جن میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہوگا1 اور بڑا ہی عمدہ بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا2
275 جنت کے انسانی عمل کا بدلہ ہونے کا مطلب ؟ : یعنی جنت اور اس کی سدا بہار نعمتیں، اہل جنت کو اگرچہ محض اللہ پاک کی رحمت و عنایت سے نصیب ہو نگی، نہ کہ انسانی عمل سے۔ کہ انسان کے پاس اتنا اور ایسا عمل ہو ہی کیسے سکتا ہے جو جنت اور اس کی بےنہایت نعمتوں کی قیمت اور ان کا مول بن سکے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک مشہور ارشاد گرامی میں فرمایا کہ " تم میں سے کوئی بھی شخص اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ عرض کیا گیا، اللہ کے نبی آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی۔ الا یہ کہ اللہ کی رحمت مجھے ڈھانپ لے " مگر اس سب کے باوجود مختلف آیات و نصوص میں بتایا گیا کہ جنت اہل جنت کے اعمال صالحہ کا صلہ و بدلہ ہوگا، جیسا کہ یہاں پر اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ سو یہ دراصل حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کا ایک اور کرم و احسان ہے کہ وہ اپنے اس عظیم الشان فضل و احسان یعنی جنت کو اپنے بندوں کے اعمال اور ان کے کئے کرائے کا بدلہ قرار دے رہا ہے کہ اس کے اس فضل و کرم کا ظاہری سبب بہرحال انسان کے اپنے اعمال ہی ہیں ۔ تَبَارَکَ اِسْمُہٗ وَتَعَالیٰ جَدُّہُ ۔ سُبْحَانَہٗ وتعالٰی ۔ اللہ تعالیٰ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
Top