Tafseer-e-Baghwi - Al-Haaqqa : 8
فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ
فَهَلْ تَرٰى : تو کیا تم دیکھتے ہو لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْۢ : کوئی بَاقِيَةٍ : باقی بچا ہوا
خدا نے اس کو سات رات اور آٹھ دن ان پر چلائے رکھا تو لوگوں کو اس میں (اس طرح) ڈہے (اور مرے) پڑے دیکھے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے
7 ۔” سخرھا علیھم “ اس کو ان پر بھیجا اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں ان پر مسلط کردیا۔ ” سبع لیال وثمانیۃ ایام “ وہب (رح) فرماتے ہیں یہ وہ دن ہیں جن کا نام عرب ایام العجوز رکھتے ہیں ٹھنڈا اور سخت ہوائوں والے۔ کہا گیا ہے ان کا نام عجوز رکھا گیا اس لئے کہ یہ سردی کی وجہ سے عاجز کردیتے ہیں اور کہا گیا ہے اس کے ساتھ نام رکھا گیا ہے اس لئے کہ قوم عاد کی ایک بوڑھی عورت ایک سوراخ میں داخل ہوگئی تو ہوا اس کے پیچھے لگی رہی، پھر عذاب اترنے کے آٹھویں دن اس کو قتل کردیا اور عذاب ختم ہوگیا۔ ” حسوما “ مجاہد اور قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں لگاتار اس میں کوئی وقفہ نہ تھا۔ پس اس پر یہ زخم کو داغنا ہے وہ یہ کہ بیماری کی جگہ پر لوہے سے داغا جائے حتیٰ کہ وہ تندرست ہوجائے۔ پھر ہر چیز کو کہا جاتا ہے جس کو پیچھے لگایا جائے۔ حاسم اور اس کی جمع حسوم ہے۔ جیسے شاہد وشھود۔ اور کلبی و مقاتل رحمہما اللہ فرماتے ہیں ” حسو ما دائمۃ “ اور نضر بن شمیل (رح) فرماتے ہیں ان کو کاٹ دیا اور ہلاک کردیا اور جسم کاٹنا اور روکنا ہے اور اس سے ” حسم الدائ “ بیماری کی وجہ سے رگ کاٹ کر خون روکنے کے لئے داغنا۔ زجاج (رح) فرماتے ہیں یعنی ” تحسمھم حسوما “ ان کو فنا کردے گی اور ختم کردے گی اور عطیہ (رح) فرماتے ہیں ” شئوم “ یعنی نحوست گویا کہ اس خیر کو ان لوگوں سے کاٹ دیا۔ ” فتری القوم فیھا “ یعنی ان راتوں اور دنوں میں۔ ” صرعی “ ہلاک شدہ صریع کی جمع ہے۔ ” کانھم اعجاز نخل خاویۃ “ گرے ہوئے۔ اور کہا گیا کھوکھلے تنے والے۔
Top