Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 111
فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ
فَسِيْحُوْا : پس چل پھر لو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَرْبَعَةَ : چار اَشْهُرٍ : مہینے وَّاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم غَيْرُ : نہیں مُعْجِزِي اللّٰهِ : اللہ کو عاجز کرنے والے وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُخْزِي : رسوا کرنے والا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہ کرسکو گے اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
(2) ” فسیحوا فی الارض “ یہاں گفتگو میں خبر سے خطاب کے صیغوں کی طرف رجوع کیا ہے۔ یعنی آپ (علیہ السلام) ان کو کہہ دیں کہ چلو زمین میں آگے پیچھے امن کے ساتھ مسلمانوں میں سے کسی کے خوف کے بغیر ” اربعۃ اشھر واعلموآ انکم غیر معجزی اللہ “ ‘ نہ اس سے بچ سکتے ہو اور نہ بھاگ سکتے ہو ” وان اللہ مخزی الکفرین “ یعنی دنیا میں ان کو قتل کے ذریعے ذلیل کرنے والا ہے اور آخرت میں عذاب کے ذریعے۔ اشھر حرم کون سے دن ہیں علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ مدت اور وہ کون لوگ تھے جن کے عہد سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے برأت کا اعلان کیا ؟ ایک جماعت نے کا کہ یہ مدت اللہ کی طرف سے مشرکین کو دی گئی ہے کہ جن کا معاہدہ چار ماہ سے کم تھا ان کے معاہدہ کی مدت چار ماہ کردی گئی ہے اور جن کے معاہدہ کی مدت متعین نہ تھی اس کو چار ماہ کے ساتھ متعین کردیا ہے کہ اس کے بعد جنگ ہوگی پھر جہاں وہ ملیں گے قتل کئے جائیں گے مگر یہ کہ وہ توبہ کرلیں اور سا مدت کی ابتداء حج اکبر کے دن سے اور اس کی مدت اختتام ربیع الثانی کی دس تاریخ تھی اور جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا ان کو مہلت دی تاکہ حرام مہینے ختم ہوجائیں اور یہ پچاس دن تھے اور زہری (رح) فرماتے ہیں کہ چار مہینے شوال، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم ہیں۔ اس لئے کہ یہ آیت شوال میں نازل ہوئی تھی اور پہلا قول زیادہ درست ہے اور اسی پر اکثر مفسرین ہیں۔ اور کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ چار مہینے کی مدت ان مشرکوں کے لئے تھی جن سے چار ماہ سے کم معاہدہ ہوا تھا کہ وہ چار ماہ مکمل کرلیں اور جن کے معاہدہ کی مدت چار ماہ سے زائد تھی تو اس مدت کے مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ کے فرمان ” فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم “ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ان مشرکوں سے لڑائی کا حکم دیا جنہوں نے آپ (علیہ السلام) سے لڑائی کی تو فرمایا ” قاتلا فی سبیل اللہ الذین یقاتلو نکم “ تو آپ (علیہ السلام) صرف ان مشرکوں سے لڑائی کرتے تھے جنہوں نے آپ (علیہ السلام) سے قتال کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام مشرکوں سے لڑائی کرنے اور ان سے بری ہونے کا حکم دیا اور ان کی چار ماہ کی مدت دی تو ان مشرکوں میں سے کسی کے لئے بھی چار ماہ سے زائد مدت نہ تھی خواہ ان سے اس اعلان برأت سے پہلے کوئی معاہدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو تو مدت سب کے لئے چار ماہ مقرر ہوئی اور ان چار ماہ کے بعد تمام مشرکوں کے خون حلال کردیئے گئے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت غزوہ تبوک سے پہلے نازل ہوئیھی۔ محمد بن اسحاق اور مجاہد و دیگر مفسرین رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اہل مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال قریش سے معاہدہ کیا کہ دس سال وہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کریں گے لوگ امن سے رہیں گے اور قبیلہ خزاعہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اور بنو بکر قریش کے عہد میں داخل ہوگیا۔ پھر بنو بکرے نے خزاعہ پر حملہ کیا اور کافی نقصان پہنچایا اور قریش نے بنو بکر کی ہتھیاروں سے مدد کی۔ جب بنو بکر اور قریش خزاعہ پر غالب آگئے اور اپنا عہدہ توڑ دیا تو عمرو بن سالم خزاعی مدینہ گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر چند اشعار کہے جن میں سارا واقعہ بیان کر کے مدد کی درخواست کی تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر میں نے تمہاری مدد نہ کی تو کسی کی مدد نہ کی اور آپ (علیہ السلام) نے ہجرت کے آٹھویں سال مکہ کی طرف لشکر کی ۔ جب ہجرت کا نواں سال تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حج کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کہ وہاں مشرکین آئیں گے اور ننگے طواف کریں گے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اس سال حج کا امیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کا حج قائم کریں اور آپ کو سورة برأۃ کی ابتدائی چالیس آیتیں دیں کہ یہ تمام حاجیوں پر پڑھ کر سنا دیں۔ پھر آپ ؓ کے بعد حضرت علی ؓ کو اپنی اونٹنی عضباء پر بھیجا کہ وہ لوگوں پر سورة برأۃ کی شروع کی آیتیں پڑھیں اور یہ حکم دیا کہ وہ مکہ اور منیٰ اور عرفہ میں یہ اعلان کریں کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا ذمہ بری ہے ہر مشرک سے اب کوئی بیت اللہ کا ننگے طواف نہ کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ لوٹے اور پوچھا اے آقا (ﷺ ) میرے ماں اور باپ آپ پر قربان ، کیا میرے بارے میں کچھ حکم اترا ہے ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں لیکن مناسب یہ تھا کہ یہ اعلان میرے گھر کا کوئی بندہ کرتا۔ کیا اے ابوبکرچ کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ تو میرے ساتھ غار میں تھا اور حوض پر میرے ساتھ ہوگا ؟ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کوچ کیا کہ آپ ؓ حج کے امیر تھے اور حضرت علی ؓ برأت کا اعلان کرتے پھر یوم الترویہ سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقی ؓ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور ان کے مناسک بیان کئے اور حج قائم کیا اور عرب اس سال میں اپنے جاہلیت کے حج کے مرتبوں پر تھے۔ جب یوم النحر آیا تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں میں اعلان کیا اور ان پر سورة برأت پڑھی۔ زید بن تبع فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ آپ ؓ اس سال کس چیز کے ساتھ بھیجے گئے ؟ تو آپ ؓ نے فرمایا کہ چار چیزوں کے ساتھ بھیجا گیا۔ (1) کوئی بیت اللہ کا ننگے طواف نہ کرے۔ (2) جس کا رسول اللہ ﷺ سے کوئی معاہدہ متعین مدت تک تھا تو وہ اس مدت تک باقی رہے گا اور جس کا معاہدہ کسی مدت تک نہ تھا تو وہ چار ماہ تک ہے۔ (3) جنت میں صرف ایمان والا داخل ہوگا۔ (4) مسلمان اور مشرک اس سال کے بعد جمع نہ ہوں گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے دسویں سال حجتہ الوداع کیا۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر بنا کر بھیجا اور پھر ان کو معزول کر کے حضر ت علی ؓ ک امیر حج کیوں بنادیا ؟ ہم جواب دیں گے علماء نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو معزول نہیں کیا تھا آپ ہی امیر حج تھے۔ حضرت علی ؓ کو تو ان آیات کا اعلان کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ اس کا سبب یہ بنا کہ عرب کی عادت اور عرف یہ تھا کہ جن سے معاہدہ کیا ہو یا تو ان کا سردار عہد توڑے یا اس کے خاندان کا کوئی فرد ایسا کرے تو حضرت علی ؓ کو اس وجہ سے بھیجا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ یہ طریقہ ہمارے عرف و عادت کے خلاف ہے اور اس بات پر دلیل کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی امیر حج تھے۔ وہ حدیث ہے جس کو حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مجھے اس حج میں نحر کے دن دو اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا کہ ہم منیٰ میں اعلان کریں کہ سن لو کہ آج کے سال کے بعد کوء مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف کرے۔
Top