ورفعنا لک ذکرک کی تفسیر
4 ۔” ورفعنا لک ذکرک “ ابوسعید خدری ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے جبرئیل (علیہ السلام) سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا ” ورفعنا لک ذکرک “ تو جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے جب میرا تذکر کیا جائے گا آپ (علیہ السلام) کا میرے ساتھ تذکرہ کیا جائے گا اور حسن (رح) سے روایت ہے فرمایا ” ورفعنا لک ذکرک “ جب میرا تذکرہ ہوگا آپ (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوگا۔ عطاء نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اذان، اقامت، تشہد اور منبروں پر خطبہ دینا مراد ہے اور اگر کوئی بندہ اللہ کی عبادت کرے اور اسکی ہر چیز میں تصدیق کرے اور یہ گواہی نہ دے کہ محمد ﷺ کے رسول ہیں تو یہ اس کو کچھ نفع نہ دے گا اور یہ کافر ہوگا اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کے ذکر کو دنیا وآخرت میں بلند کردیا۔ پس نہیں ہے کوئی خطیب اور نہ ہی کوئی تشہد پڑھنے والا اور نہ کوئی نماز والا مگر پکاررہا ہے۔ ” اشھدان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ “ اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی نماز اس کے بغیر قبول نہیں اور کوئی خطبہ اس کے بغیر جائز نہیں اور مجاہد (رح) فرماتی ہیں یعنی اذان دینے کے ساتھ اور اسی بارے میں حسان بن ثابت فرماتے ہیں :
” کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ نے اپنے بندہ کو بھیجا اپنی دلیل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ بلند اور بزرگ تر ہے۔ روشن کی آپ ﷺ پر نبوت کی مہر۔ اللہ کی طرف سے گواہی دی ہوئی چمکتی ہے اور گواہی دیتی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے نام کو اپنے تام کے ساتھ ملادیا ہے۔ جب مئوذن پانچ نمازوں میں ” اشھد “ کہتا ہے۔
اور آپ ﷺ کے لئے اپنے نام میں سے نام نکالا تاکہ ان کی تعظیم کریں۔ پس عرش والا محمود اور یہ محمد ( ﷺ ) ہیں۔ “
اور کہا گیا ہے کہ آپ (علیہ السلام) کا بلند ہونا آپ (علیہ السلام) کے میثاق کا انبیاء (علیہم السلام) سے لینا ہے اور ان پر لازم کرنا ہے کہ آپ (علیہ السلام) پر ایمان لائیں اور آپ (علیہ السلام) کے فضل کا اقرار کریں۔ پھر آپ (علیہ السلام) سے آسانی اور سختی کے بعد نرمی کا وعدہ کیا ہے کیونکہ اس وقت آپ (علیہ السلام) مکہ میں تھے۔