Baseerat-e-Quran - Yunus : 23
فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ١ۙ مَّتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَنْجٰىھُمْ : انہیں نجات دیدی اِذَا : اس وقت ھُمْ : وہ يَبْغُوْنَ : سرکشی کرنے لگے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں بَغْيُكُمْ : تمہاری شرارت عَلٰٓي : پر اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں مَّتَاعَ : فائدے الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا ثُمَّ : پھر اِلَيْنَا : ہماری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا فَنُنَبِّئُكُمْ : پھر ہم بتلادینگے تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
پھر جب ہم ان کو بچا لیتے ہیں وہ لوگ ناحق زمین پر سرکشی اور نافرمانی شروع کردیتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری نافرمانی و سرکشی تمہارے لئے وبال جان ہے۔ دنیا کی زندگی کے یہ مزے ہیں پھر تمہیں ہماری ہی طرف لوٹ کر آتا ہے۔ پھر ہم تمہیں بتائیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 24 تا 25 مثل (مثال) اختلط (رل مل گیا) نبات الارض (زمین کا سبزہ، پیداوار) الانعام (مویشی، چو پائے) اخذت (پکڑ لیا) زخرف (رونق) ازینت (آراستہ ہوگئی، سنور گئی) ظن (گمان کرلیا) اھل (مالک، (کاشتکار) امرنا (ہمارا حکم (فیصلہ) حصید (کٹا ہوا ڈھیر، کٹی ہوئی کھیتی ) لم تغن (آیا نہ رہی تھی، لم تغن جو اصل میں لم تغنا تھا آخر کا الف گر گیا تغن کا معنی ہیں آباد ہونا، رہنا سہنا۔ امس (جو کل گذر گئی اس کو امس کہتے ہیں) ۔ نفصل (ہم تفصیل (صاف صاف) بیان کرتے ہیں یدعوا (وہ بلاتا ہے، پکارتا ہے، دعوت دیتا ہے ۔ دار السلام (سلامتی کا گھر، (جنت ، آخرت) صراط مستقیم (وہ راستہ جو بالکل سیدھا (منزل تک پہنچانے والا ) ہو ۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 25 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا ایسی روزمرہ کی مثالیں بیان کر کے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جس کو ہر شخص بہت آسانی اور سہولت سے سمجھ سکتا ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہر شخص یہ دیکھتا ہے کہ زمین کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں بارش نہ ہونے سے بےرونقی محسوس ہوتی ہے کہ اچانک بلندی سے زور دار بارش ہوتی ہے جس سے زمین میں ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے ہر طرح سر سبزی و شادابی بکھر جاتی ہے، درختوں پر ایک خاص نکھار اور پھبن آجاتی ہے کھیت لہلہا اٹھتے ہیں اور کھیتوں میں جان پڑجاتی ہے۔ اب آدمی بڑا خوش ہوتا ہے اور اس تصور کے ساتھ پروگرام بناتا ہے کہ میری کھیتی تیار ہوگئی، باغ کے پھل ائٓیں گے، میوہ اور اناج کے ڈھیر ہوں گے، اس پر کبھی کبھی ایسا ناز اور غرور چھا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب ترین آدمی سمجھنے لگتا ہے لیکن اچانک ایک دن یا رات میں اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے اور اس کی راہ کھیتی نہ صرف برباد ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ اس کے تصورات اور تمنائیں بھی بکھر کر رہ جاتی ہیں اس کے کھیت اجڑ جاتے ہیں کہ جیسے کل یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعہ یہ سمجھایا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک شخص نے دن رات خوب محنت کر کے بہت سی دولت کمائی، دنیا کے ڈھیر لگا لئے اس کے پاس دنیا کی دولت کی اس طرح ریل پیل ہوگئی کہ وہ سمجھنے لگا کہ مجھے زندگی میں جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا لیکن ایک دن اچانک زمین یا آسمانی حادثہ پیش آجاتا ہے اور وہ سب کچھ جس کو وہ اپنا سجھ رہا تھا اس کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے یا موت کا ایک پنجہ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ فرمایا کہ انسان جس چیز کو جس دنیا کو اور اس کے سامان کو یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کا ہے وہ بہت بڑی بھول میں ہوتا ہے۔ ان اسباب اور چیزوں میں کوئی عافیت، سلامتی اور پائیدار نہیں ہے بلکہ ایک حد یا جا کر یہ چیزیں اس سے چھین لی جاتی ہے۔ سلامتی اور عافیت کا راستہ صرف وہ ہے جس طرف اللہ اپنے بندوں کو بلاتا ہے اس میں پائیداری ہے اور وہی صراط مستقیم ہے۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو ایک ہی بات ملے گی کہ کوئی بادشاہ یا دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہو وہ موت کے سامنے بےبس ہے۔ جس دنیا نے اس کو فرعون، ہامان ، شد اد اور قارون بنا دیا، آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں ان کی سلطنتیں، درباری اور دولت کے ڈھیر بھی نہیں ہے اور وہ خاک کا پیوند بن چکے ہیں۔ اگر حکومت و اقتدار، مال و دولت بڑی بڑی بلڈنگوں میں سلامتی کا کوئی پہلو ہوتا تو وہ برقرار رہتیں لیکن آج ان کا غرور اور کرو فرسب خاک میں مل چاک ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے سلامتی اور اسلام کا راستہ اختیار کرلیا وہ اگرچہ اپنے زمانہ میں انتہائی غریب و مفلس تھے لیکن اسی سلامتی کے راستے کو اختیار کرنے سے، صراط مستقیم پر چلنے سے وہ اس مقام کے لوگ ہوگئے ہیں کہ جن کی طرف نسبت کرنے کو لوگ لائق فخر سمجھتے ہیں۔ پوری دنیا میں دیکھی لیجیے تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کر لیجیے آج تک دنیا میں کوئی شخص اپنی نسبت فرعون، ہامان، شداداد اور قارون کی طرف نہیں کرتا۔ کوئی اس بات پر فخر نہیں کرتا کہ میں ابوجہل یا ابولہب کی اولاد ہوں۔ یہاں تک کہ اگر ان کی اولاد ہوتی تو وہ بھی اپنے آبا و اجداد پر فخر نہ کرتی ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرتی لن کی جن لوگوں نے دامن مصطفیٰ ﷺ کو تھام لیا آج ان کی طرف نسبت کرنے کو قابل فخر سمجھا جاتا ہے ۔ صدیقی ، فاروقی، عثمانی اور علوی لکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ سلامتی اور عافیت کا راستہ اور صراط مستقیم صرف وہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اور آپ کے رسول ﷺ بلا رہے ہیں۔ اس راستے کے علاوہ ہر راستہ وہ ہے جو انسان کو اس دنیا میں اور آخرت میں عزت کا حقیقی مقام نہیں دلاتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر سلامتی کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Top