Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 35
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اُكُلُهَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّهَا١ؕ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا١ۖۗ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِیْنَ النَّارُ
مَثَلُ : کیفیت الْجَنَّةِ : جنت الَّتِيْ : وہ جو کہ وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : اس کے نیچے لْاَنْهٰرُ : نہریں اُكُلُهَا : اس کے پھل دَآئِمٌ : دائم وَّظِلُّهَا : اور اس کا سایہ تِلْكَ : یہ عُقْبَى : انجام الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : پرہیزگاروں (جمع) وَّعُقْبَى : اور انجام الْكٰفِرِيْنَ : کافروں النَّارُ : جہنم
اور انہیں اللہ (کے عذاب) سے کوئی بچانے والا نہیں،69۔ جنت جس کا وعدہ متقیوں سے ہوا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اس کا پھل اور اس کا سایہ دائمی ہوگا یہ انجام ہوگا اہل تقوے کا اور کافروں کا انجام آتش (دوزخ) ہے،70۔
69۔ (نہ دنیا میں نہ آخرت میں) 70۔ آیت میں صاف صاف دونوں راستوں کفرو ضلالت اور ایمان وہدایت کا انجام بتا دیا ہے، ایک کا نتیجہ دائمی سکھ ہے اور دوسرے کا مستقل دکھ، کسی کو اس باب میں اشتباہ رہنا ہی نہ چاہیے۔ (آیت) ” المتقون “۔ تقوی کی اولین شرط کفر وشرک سے احتیاط ہے، (آیت) ” اکلھا دآئم “۔ جنت کی نہ تو کوئی نعمت فنا ہوگی اور نہ کوئی راحت زائل۔
Top