Baseerat-e-Quran - Ar-Ra'd : 35
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اُكُلُهَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّهَا١ؕ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا١ۖۗ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِیْنَ النَّارُ
مَثَلُ : کیفیت الْجَنَّةِ : جنت الَّتِيْ : وہ جو کہ وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : اس کے نیچے لْاَنْهٰرُ : نہریں اُكُلُهَا : اس کے پھل دَآئِمٌ : دائم وَّظِلُّهَا : اور اس کا سایہ تِلْكَ : یہ عُقْبَى : انجام الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : پرہیزگاروں (جمع) وَّعُقْبَى : اور انجام الْكٰفِرِيْنَ : کافروں النَّارُ : جہنم
جنت جس کا اہل تقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے وہ ہے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ اس کے پھل اور اس کا سایہ دائمی ہوگا۔ یہ ان لوگوں کا انجام ہوگا جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے اور کافروں کا انجام جہنم ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 35 تا 37 مثل مثال وعد وعدہ کیا گیا اکل پھل۔ انجام دائم ہمیشہ رہنے والا ظل سایہ عقبی انجام تفرحون وہ خوش ہو رہے ہیں الاحزاب (حزب) جماعتیں۔ گروہ ینکر انکار کرتا ہے امرت مجھے حکم دیا گیا ہے اعبد میں عبادت و بندگی کرتا ہوں لا اشرک میں شرک نہیں کرتا ہوں ادعوا بلاتا ہوں ماب ٹھکانا حکم فیصلہ اتبعت تو نے پیروی کی۔ تو پیچھے چلا اھواء (ھوائ) خواہشات مالک تیرے لئے نہیں ہے ولی حمایتی۔ مددگار واق بچانے والا تشریح : آیت نمبر 35 تا 37 اس دنیا کی عارضی زندگی کی ہر خوشی اور غم کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتے کبھی ہر طرف خوشی اور راحتیں اور سکون ہی سکون ہوتا ہے لیکن جب خوشی کے لمحے دبے قدموں گذر جاتے ہیں تو غم اور ناکامیابیوں کے اندھیرے چھا جاتے ہیں، نہ غم ٹھرتا ہے اور نہ خوشی۔ کبھی کی راتیں بڑی اور کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے جس کی خوشی اور غم ہمیشہ کے لئے ہیں۔ ان آیات میں اسی بات کو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ جنت جس کا وعدہ اہل تقویٰ سے کیا گیا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ وہ جنتیں ایسی ہونگی جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی یعنی ہر طرف سرسبزی و شادابی ہوگی اس کے پھل اور سائے بھی دائمی اور ہمیشہ کے لئے ہوں گے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے کفر و شرک کو اپنی زندگی بنا لیا ہے ان کو ایسی جہنم میں جھونک دیا جائے گا جس میں کسی طرح کی راحتیں اور آرام نہ ہوں گے بلکہ ان پر عذاب بھی ایک وقت کے لئے نہیں بلکہ دائمی عذاب ہوگا ۔ یہ اہل تقویٰ اور اہل کفر کا انجام ہے۔ نہ اہل تقویٰ ہر طرح کی راحتوں سے محروم رہیں گے اور نااہل کفر جہنم کی آگ سے بچ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام نازل کردیا ہے جس میں اس حقیقت کی پوری طرح وضاحت کردی گئی ہے بعض وہ لوگ جو اہل کتاب ہیں ان کے دلوں سے یہ خوشی ابھرتی ہے کہ واقعی اللہ کا کلام ہی انسانوں کی ہدایت کیلئے کافی ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر و شرک کی روش اختیار کر رکھی ہے ان کو قرآن کریم کا نازل ہونا گوارگذرتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ اس بات کا اعلان کردیجیے کہ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں ایک اللہ کی عبادت و بندگی کروں اور اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کروں۔ میرا یہی کام ہے کہ میں اسی ایک اللہ اور اس کی بندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دوں اور وہی اللہ میرا ٹھکانا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ جن لوگوں کو اللہ کا دین پہنچا رہے ہیں ان کی زبان عربی ہے۔ قرآن کریم بھی عربی میں نازل کیا گیا ہے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ہم اس دین کو کیسے سمجھیں یہ تو کسی اجنبی زبان میں ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے پوری امت کو بتایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! اگر اس علم اور سچائی کے آجانے کے بعد آپ بھی کسی اور کی بات مانیں گے تو اس بات کو اللہ کی حمایت حاصل نہیں ہوگی اور نہ عذاب الٰہی سے بچنا ممکن ہوگا ۔ جب نبی کریم ﷺ سے یہ فرمایا جا رہا ہے تو عام آدمی دوسری قوموں کے نظریات کی پیروی کر کے اللہ کے فیصلے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
Top