Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
بیشک اللہ آدم (علیہ السلام) ، نوح (علیہ السلام) ، اور ابراہیم (علیہ السلام) ، کے خاندان اور عمران کے خاندان کو تمام جہان والوں پر منتخب کیا تھا۔
لغات القرآن آیت نمبر 33 تا 41 اصطفی (اس نے چن لیا، منتخب کرلیا) انی نذرت (بےشک میں نے منت مان لی) بطنی (میرا پیٹ) محرر (آزاد) وصعت (اس نے جنم دیا (پیدا کیا) انثیٰ (عورت ، لڑکی) سمیت (میں نے نام رکھ دیا) مریم (پاک باز، نیک) اعیذ (میں نے پناہ میں دے دیا) بقول حسن (بہترین طریقے پر قبول کرنا) انب تھا (اس نے اس کو پروان چڑھایا) کفل (وہ ذمہ دار ہوا) المحراب (عبادت کی جگہ، نماز پڑھنے کی جگہ) انی لک ھٰذا (یہ تیرے پاس کہاں سے آیا) ھنالک (اسی جگہ، اسی موقع پر) دعا (پکارا، دعا کی) ھب لی (مجھے عطا فرمادیجئے) ذریة طیبة (بہترین اولاد) سمیع الدعاء (دعا کا سننے والا) نادت (آواز دی) یصلی (وہ نماز پڑھتا ہے) یبشرک (تجھے خوشخبری دیتا ہے) سید (سرادار) حصور (پاک باز) انی یکون (کیسے ہوگا، کہاں سے ہوگا) غلام (لڑکا) بلغنی (مجھے پہنچ گیا) الکبر (بڑھاپا) امراتی (میری بیوی) عاقر (بانجھ (جس عورت کے بچہ ہونا ممکن نہ ہو) الاتکم (یہ کہ تو کلام نہ کرے گا) ثلثٰة ایام (تین دن) رمز (اشارہ) العشی (شام ، رات) الابکار (صبح، صبح تڑکے) ۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 41 عیسائیوں کی گمراہی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کا بندہ اور رسول ماننے کے بجائے انہیں اللہ کا بیٹا اور اس کی الوہیت میں شریک سمجھتے تھے اس لئے نخران سے آئے ہوئے وفد کو سمجھانے کے لئے اس مضمون کو اس طرح شروع کیا گیا ہے کہ حضرت آدم ، حضرت نوح، آل ابراہیم اور آل عمران سب کے سب اللہ کے برگزیدہ اور نیک انسان تھے جن کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کی نسل سے تھے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلا آرہا ہے ان میں سے کوئی بھی اللہ کی الوہیت میں شریک نہ تھا بلکہ انسانوں کے گروہ میں سے عظیم انسان تھے۔ حضرت عیسیٰ کے تفصیلی حالات بیان کرنے سے پہلے اللہ نے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کی پیدائش اور ان کے حالات بیان فرمائے کہ کس طرح اللہ نے ان پر اور آل عمران پر اپنی عنایات اور کرم نوازیاں کی ہیں۔ بعض وہ عیسائی جو حضرت عیسیٰ کے ساتھ حضرت مریم کو بھی الوہیت میں شامل سمجھتے تھے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ مریم تو خود کتنی دعاؤں کے بعد پیدا ہوئیں اور کس طرح اور کن حالات میں ان کی پرورش میں کس طرح دوسروں کی محتاج رہیں۔ بھلا وہ جو اپنی پیدائش، پرورش اور نشوونما میں دوسروں کا محتاج ہو وہ معبود کس طرح ہوسکتا ہے۔ حضرت مریم کے والد کا نام عمران تھا۔ حضرت مریم کی والدہ نے دعا کی الہٰی اگر مجھے آپ اولاد عطا فرمادیں گے تو میں اس کو آپ کے دین کے لئے ازادرکھوں گی۔ اس زمانہ میں اس بات کو بہت بڑی نیکی سمجھا جاتا تھا کہ پیدا ہونے والی الاد کو اس طرح اللہ کے گھر اور اس کی عبادت کے لئے آزاد کردیا جائے کہ وہ زندگی کی تمام ذمہ داریوں سے الگ رہتے ہوئے صرف اسی کی بندگی میں لگا رہے۔ اس دعا میں حضرت مریم کی والدہ نے گویا اشارۃً بیٹے کی تمنا کی تھی۔ اللہ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور ان کے گھر میں حضرت مریم پیدا ہوئیں۔ حضرت مریم کی پیدائش کے بعد ان کی والدہ سخت پریشان ہوئیں کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے اس کو اللہ کے لئے میں کیسے آزاد کروں گی۔ اللہ نے ان کے دل میں اس بات کو القا فرمایا کہ اے مریم کی والدہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ لڑکی کتنی باعظمت ہے۔ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرمائیں گے۔ حضرت مریم کچھ بڑی ہوئیں تو منت کے مطابق ان کو عبادت کے لئے مخصوص کردیا گیا اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جو اس وقت عبادت خانہ (بیت المقدس) کے متولی بھی تھے اور حضرت مریم کے خالو بھی تھے ان کی کفالت و نگرانی میں دے دی گئیں۔ ایک علیحدہ کمرہ میں ان کو رکھا گیا۔ جب حضرت مریم جوان ہوگئیں تو حضرت زکریا (علیہ السلام) باہر سے تالا ڈال کر جایا کرتے تھے مگر جب واپس آتے تو دیکھتے کہ حضرت مریم اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں اور ان کے پاس بےموسم کے طرح طرح کے پھل رکھے ہوئے ہیں۔ ایک دن حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم سے پوچھا کہ اتنے اچھے اور تازہ بےموسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں ؟ حضرت مریم کا جواب تھا یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ حضرت زکریا نے اس جگہ ان انوارات کو محسوس کیا اور بےساختہ زبان پر یہ دعا آگئی۔ الہٰی اگر مریم کو بےموسم کے پھل دے سکتے ہیں تو میں اگرچہ بوڑھا ہوچکا ہوں اور اولاد پیدا ہونے کا ظاہری امکان بھی موجود نہیں ہے لیکن آپ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ آپ مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرمادیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کو قبول فرمایا۔ ایک دن وہ محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے فرشتوں نے اللہ کی طرف سے ان کو بیٹے کی خوشخبری دی۔ حضرت زکریا نے حیرت اور تعجب اور کچھ یقین حاصل کرنے کے لئے بےساختہ عرض کیا الہٰی میری تمنا خواہش اور دعا تو اپنی جگہ ہے لیکن کیا میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ؟ اللہ نے فرمایا کہ ہاں اے زکریا۔ ہم دنیا کے اسباب کے محتاج نہیں ہیں ہم تمہیں یحیٰ (علیہ السلام) جیسا بیٹا دیں گے جو اللہ کے ایک کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔ ان میں سرداری اور بزرگی کی تمام شانیں موجود ہوں گی وہ نبوت سے بھی سرفراز ہوں گے اور ان کا صالحین میں شمار ہوگا۔ حضرت زکریا نے عرض کیا الہٰی میرے لئے اس کی کوئی نشانی مقرر کردیجئے اللہ نے فرمایا اے زکریا جب یہ واقعہ ہوگا تو تم تین دن تک سوائے اشاروں کے لوگوں سے بات نہ کرسکو گے۔ چونکہ اللہ کی یہ نعمت ہے جو تمہیں عطا کی جارہی ہے لہٰذا اس دوران تم اپنے پروردگار کو بہت یاد کرنا اور صبح وشام اسکی تسبیح کرتے رہنا یہ اسکی نعمت کا شکر ادا کرنیکے مترادف ہوگا۔
Top