Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 73
وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْكِتٰبِ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْھُمْ : ان سے (ان میں) لَفَرِيْقًا : ایک فریق يَّلْوٗنَ : مروڑتے ہیں اَلْسِنَتَھُمْ : اپنی زبانیں بِالْكِتٰبِ : کتاب میں لِتَحْسَبُوْهُ : تاکہ تم سمجھو مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَمَا : حالانکہ نہٰں ھُوَ : وہ مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَا : حالانکہ نہیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : طرف اللّٰهِ : اللہ وَيَقُوْلُوْنَ : وہ بولتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
اور قوم ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اس اللہ کی اطاعت و بندگی کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانی آچکی ہے۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشانی ہے تم اس کو چھوڑ دوتا کہ وہ اللہ کی زمین سے کھائے اور اس کو بری نیت سے ہاتھ نہ لگانا (اگر تم نے ایسا کیا تو) اللہ کا عذاب تمہیں پہنچ جائے گا۔
لغات القرآن آیت نمبر (73 تا 79) ۔ نقتہ اللہ (اللہ کی اونٹنی) ۔ ذروھا۔ (اس کو چھوڑے رکھنا) ۔ تاکل (کھائے گی) ۔ لاتمسو (تم نہ چھونا) ۔ بسوء (برائی سے۔ بری نیت سے) ۔ بوا (اس نے ٹھکانا دیا) ۔ سھول (نرم جگہیں) ۔ قصور (قصر) ۔ محلات) ۔ تنحتون (تم تراشتے ہو) ۔ الجبال (الجبل) ۔ پہاڑ) ۔ بیوت (گھر) ۔ لا تعثوا (تم نہ پھرو) ۔ استکبروا (جنہوں نے بڑائی کی۔ تکبر کیا) ۔ استضعفوا (جو کمزور بنادیئے گئے تھے) ۔ عقروا (انہوں نے کاٹ ڈالا) ۔ عتوا (نافرمانی کی) ۔ اخذت (پکڑ لیا۔ آلیا) ۔ الرجفتہ (زلزلہ۔ بھونچال) ۔ جٰثمین (اوندھے پڑے ہوئے) ۔ نصحت (میں نے نصیحت کردی تھی) ۔ لا تحبون (تم پسند نہیں کرتے) ۔ الناصحین (نصیحت کرنے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر (73 تا 79) ۔ ” قوم عاد کے بعد قوم ثمود دوسرے بڑی قوم ہے جو بہت زیادہ مشہور ہے اس کو عاد ثانی بھی کہتے ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب بھی حضرت نوح (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے قوم عاد کی بربادی کے بعد جس قوم کو سب سے زیادہ عروج حاصل ہوا وہ قوم ثمود تھی، ان پر نعمتوں کی بہتات تھی ان کا علاقہ مغربی عرب کا وہ مقام ہے جو آج بھی ” الحجر “ کے نام سے مشہور ہے جو مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے یہاں چھوٹے چھوٹھ پہاڑ ہیں جنہیں تراش کر انہوں نے شہر بسالئے تھے جن میں خوبصورت مکان، بلند وبالا بلڈنگیں، چوڑی سڑکیں، بہترین پانی کے کنویں غرضیکہ یہ قوم ہر طرح کی مال و دولت سے مالا مال تھی۔ سورة الفجر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے شہر ارم جیسا دوسرا کوئی عالی شان شہر آج تک دنیا میں نہیں بن سکا۔ ان کے وسیع و عریض کھنڈرات آج بھی تازیانہ عبرت کی واضح مثال بنے ہوئے ہیں مدینہ منورہ سے بہت زیادہ فاصلہ پر نہیں ہیں حجاز کے تجارتی قافلے اس راستے سے گذرا کرتے تھے غزوہ تبوک کے موقع پر جب آپ ﷺ اس علاقے میں پہنچے تو آپ ﷺ نے اس کنویں اور جہاں اس قوم پر عذاب آیا تھا صحابہ کرام ؓ کو بتایا اور یہ فرمایا کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اللہ نے قوم ثمود پر عذاب نازل کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر صحابہ کرام ؓ کو جمع کر کے ایک خطبہ بھی ارشاد فرمایا جس میں انہیں اس قوم کی نافرمانی اور اس کے نتیجے میں اللہ کے عذاب سے متعلق باتیں بتا کر عبرت دلائی۔ ان ہی قوم کے فرد حضرت صالح (علیہ السلام) کو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ان کی طرف بھیجا آپ ْ ﷺ نے جب ان لوگوں کو بتایا کہ وہ اللہ کی طرف سے ان کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں اور انہوں نے اس قوم کو شرک و بدعات سے روکنے کی کوشش کی تو اس قوم نے ماننے کے بجائے یہ کہا کہ اے صالح (علیہ السلام) ہم اس بات کا کیسے یقین کرلیں کہ تمہیں ہماری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے جب تک ہم اپنی آنکھوں سے کوئی معجزہ نہ دیکھ لیں تمہارے اوپر ایمان نہ لائیں گے۔ ہمیں اپنی نشانی کے طور پر کوئی معجزہ دکھایئے۔ مطالبہ یہ تھا کہ ایک بہت ہی اونچی اور بہت موٹی تازی اونٹنی سامنے والی پہاڑی سے پیدا کر کے دکھا دو اس کے جسم پر خاص نشانات ہوں پھر وہ انٹنی فوراً ایک نر بچہ جنے وہ بھی ضوب اونچا اور فربہ ہو۔ اس کے جسم پر بھی خاص نشانات ہوں۔ اے صالح (علیہ السلام) اگر تم ایسی اونٹنی اور بچہ کا معجزہ دکھا دو گے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے اللہ سے دعا کی۔ اللہ کے حکم سے سامنے والی پہاڑی سے ایسی اونٹنی بھی پیدا ہوگئی اور اس کا بچہ بھی۔ مگر چند خاص لوگوں کے سوا کوئی بھی ایمان نہیں لایا۔ ان آیات میں حضرت صالح (علیہ السلام) نے جو ربانی تبلیغ فرمائی ہے وہ اونٹنی اور اس کے بچے کی پیدائش کے بعد ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ : تمہارے رب کی نشانی تم تک پہنچ چکی ہے اب تم حسب وعدہ ایمان لاؤ۔ مگر انہوں نے اس کھلی ہوئی نشانی کو دیکھ کر بھی ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اونٹنی اور اس کا بچہ قدو قامت میں جتنے لمبے چوڑے بلند اور فربہ تھے کھانے پینے کی ان کو اتنی ہی ضرورت تھی وہ آزادانہ کھیتوں اور ندیوں میں دندناتے پھرتے اور جو کچھ چاہتے کھاپی جاتے اس سے ثمودیوں میں سخت غم و غصہ اور خلفشار پیدا ہوگیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ جب تم نے اللہ سے اتنے بڑے بڑے جانوروں کی فرمائش کی تھی تو یہ بھی سوچا تھا کہ آخر انہیں کھلاؤ پلاؤ گے کہاں سے ؟ اب اپنی حماقت کا نتیجہ بھگتو۔ یہ انٹنی اللہ کی قدرت کی نشانی ہے اسے کھانے پینے کے لئے آزاد چھوڑ دو ۔ مجھے اندازہ ہے کہ تم بہت دیر تک برداشت نہ کرسکو گے لیکن یاد رکھو اگر تم نے ان کو ذرا بھی تکلیف پہنچائی تو اللہ کا درد ناک عذاب تم پر ٹوٹ پڑے گا۔ ایسا ہی ہوا اس قوم کے ایک فرد جس کا نام ” قیدار “ آتا ہے اس نے ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر اس کے بہکانے پر اس اونٹنی اور اس کے بچے کو ذبح کردیا چونکہ اس ایک شخص کے پیچھے پوری قوم کی حمایت شامل تھی اس لئے عذاب نے پوری قوم کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس جگہ اور قرآن کریم کی دوسری آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی گناہ کسی قوم کے اندر ہوتا ہے اور قوم اس کو جاننے کے باوجود اس پر راضی ہے تو پوری قوم کا مقدر وہ عذاب ہوا کرتا ہے جس کی لپیٹ میں برے لوگوں کے ساتھ نیک اور صالح لوگ بھی آجایا کرتے ہیں۔ غرضیکہ حضرت صالح نے اس قوم کو ہر طرح سمجھایا مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان پر واضح کردیا تھا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر کیسے کیسے گراں قدر انعامات کئے ہیں اس لئے اس کا احسان مانو شکر کرو ظلم فساد شرک و بدعات اور گناہوں کے کاموں سے توبہ کرکے ویمان لائو اور شریعت پر چلو لیکن ہوا وہی جو عام طور پر ہوا کرتا ہے۔ کفر و شرک اور صحت اور فراغت جب ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں تو عام طور پر بصیرت رخصت ہوجاتی ہے فرد ہو یا جماعت لوگ اللہ سے غافل ہو کر ابلیس کے جال میں کود پڑتے ہیں۔۔۔۔ قوم ثمود کے سامنے قوم عاد اور قوم نوح کے واقعات زندہ و تابندہ تھے لیکن انہوں نے کوئی نصیحت اور عبرت نہیں پکڑی وہ اپنے کفرو شرک اور بدعات سے چمٹے رہے۔ ان کے بد مست اور بد کردار سردار جو اپنے اقتدار اور دولت میں مست تھے طنز کے طور پر اہل ایمان سے پوچھنے لگے کہ : ” کیا واقعی صالح (علیہ السلام) کو اس کے (ہمارے نہیں) رب نے رسول بنا کر بھیجا ہے “ ؟ انہوں نے جواب میں شخصیت سے بحث نہیں کی بلکہ حضرت صالح کے لائے ہوئے پیغام کو ثبوت میں پیش کیا۔ اور کہا کہ ہم تو سو فیصد اس پیغام کو صحیح اور درست مانتے ہیں اور یہی ثبوت ان کی نبوت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ سرداروں نے پورے تکبر اور غرور سے کہا کہ تم نادان ہو تم مان لو۔۔۔۔ ۔۔ ۔ لیکن ہم اس پیغام کو صحیح نہیں مانتے۔
Top