Baseerat-e-Quran - Yaseen : 55
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : اہل جنت الْيَوْمَ : آج فِيْ شُغُلٍ : ایک شغل میں فٰكِهُوْنَ : باتیں (خوش طبعی کرتے)
بیشک آج کے دن اہل جنت (خوش و خرم) اپنے مشغلوں میں مصروف ہوں گے ۔
لغات القرآن : آیت نمبر 55 تا 68 :۔ شغل ( مشغلے) فکھون ( دل لگی کرنے والے) متکون (تکیہ لگا کر بیٹھنے والے) یدعون ( وہ پکاریں گے ، خواہش کریں گے) امتازوا ( تم الگ ہو جائو) جبلا ( جماعت ، لوگوں کا گروہ) نختم ( ہم مہر لگا دیں گے) افواہ ( فوہ) (منہ) تشھد ( گواہی دیں گے) طمسنا ( ہم سجھائی دیتے) مضیا (چلنا) نعمرہ ( ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اس کو) ننکسہ ( ہم اوندھا کردیتے ہیں اس کو) تشریح : آیت نمبر 55 تا 68 :۔ جہنم والوں کی سزا بیان کرنے کے بعد اب جنت والوں کی جزا اور بدلہ کا بیان کیا جا رہا ہے کہ اہل جنت کس قدر خوش و خرم اور اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ۔ جنت کیا ہے ؟ اس دنیا میں رہ کر اس کی خوبصورتی اور حسن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ اس کو کسی محسوس مثال میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے جنت کی خوبصورتی اور راحت و آرام کے متعلق فرمایا ہے کہ جنت اتنی حسین ہوگی کہ کسی آنکھ نے دیکھی نہ ہوگی ، نہ کسی کان نے سنی ہوگی اور نہ کسی کے دل پر اس کا تصور اور گمان بھی گزرا ہوگا ۔ جب اہل جنت میدان حشر میں پہنچیں گے تو ان کو روک کر نہیں رکھا جائے گا بلکہ شروع ہی میں ہلکے پھلکے حساب کتاب کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا جہاں ہر طرح کی راحتیں ان کی منتظر ہوں گی ۔ تمام پریشانیوں اور مشکلات سے بےغم ہر طرح کے عیش و آرام اور راحت و نعمتوں میں مشغول ہوں گے ۔ ان جنتیوں میں نہ عبادت کی مشقیں ہوں گی نہ پیٹ بھرنے کے لئے بھاگ دوڑ اور محنتیں ہوں گی ۔ ان کی بیویاں اور ہم عمر خوبصورت حوریں ہوں گی جو درختوں کے گھنے سائے میں مسہریوں پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بےغم اور بےفکر اللہ کی مہمان دری سے خوشی اور مسرت محسوس کر رہے ہوں گے ۔ ہر طرح سر سبزی و شادابی ہوگی لہلہاتے کھیت ، خوبصورت و بلند بالا عمارتیں ہر طرف بہتی نہریں ہوگی ، اہل جنت کا بہت قیمتی ریشمی لباس ہوگا وہ ایسا سلامتی کا گھر ہوگا جس میں کوئی لغو ، فضول اور بےہودہ بات نہ سنائی دے گی ، چھلکتے جام ہوں گے ان جسمانی لذتوں کے ساتھ ساتھ روحانی ترقیاں بھی نصیب ہوں گی اور ان کا سب سے بڑا اعزاز واکرم یہ ہوگا کہ ان کو اللہ کی طرف سے سلام پہنچایا جائے گا یا خود اللہ تعالیٰ اہل جنت کو سلام ارشاد فرمائیں گے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے جنت کی ابدی راحتوں کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسی جنتوں میں جانے کا خواہش مند ہے کیا اس کے لئے تیاریاں کرنے والا ہے ؟ جس میں کوئی رنج و غم اور خوف نہ ہوگا ۔ رب کعبہ کی قسم وہ جنتیں نور ہی نور ہوں گی جن میں بیحد تازگیاں ہوگی ۔ اس کا سبزہ لہلہا رہا ہوگا ۔ اس کے بالا خانے مضبوط و مستحکم اور بلند وبالا ہوں گے ۔ اس میں رواں دواں نہریں ہوگی ، اس کے پھل پکے ہوئے ذائقہ دار ہوں گے اور بہت کثرت سے ہوں گے ۔ اس میں ان کے لئے خوبصورت حوریں ہوں گی ۔ ان کا لباس نہایت قیمتی اور ریشمی ہوگا اور یہ ساری نعمتیں وہ ہوں گی جنہیں کبھی زوال نہ آئے گا ۔ جنت سلامتی کا گھر اور سبزہ اور تازہ پھلوں کا باغ ہوگا ۔ اس کی نعمتیں بہت کثرت سے اور بہتریں ہوگی ۔ اس میں بلند وبالا محل ہوں گے جو زیب و زینب سے آراستہ ہوں گے ۔ یہ سن کر تمام صحابہ کرام ؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم اس کے لئے تیار ہیں اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ انشاء اللہ کہو ۔ سب نے انشاء اللہ کہا ۔ آپ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جنتی اپنی جنتوں کی راحتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے کہ اوپر کی جانب سے ایک نور چمکے گا ۔ یہ سب لوگ اپنا سر اوپر اٹھا کر دیکھیں گے تو اللہ کا نور دیکھنے کا شرف حاصل کریں گے وہ اللہ کو بغیر کسی حجاب اور پردے کے براہ راستہ دیکھیں گے اور اللہ ان کو دیکھے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ” السلام علیکم یا اھل الجنۃ “ اس وقت اہل جنت اس نور کو دیکھنے میں اس طرح محو ہوجائیں گے کہ وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے ۔ یہاں تک کہ ایک پردہ حائل ہوجائے گا اور نور و برکت ان اہل جنت کے پاس رہ جائے گی ۔ ( سنن ابن ماجہ) جب کفار و مشرکین اور اللہ کے فرماں بردار مومنین قبروں سے اٹھیں گے تو سب کے سب ایک ساتھ ہوں گے مگر میدان حشر میں ان دونوں کو اور کفار کی گندگیوں اور مومنین کی نیکیوں کو الگ الگ کردیا جائے گا ۔ یہ دن جہاں اہل جنت کے لئے ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کی خوش خبری اور راحت و آرام کا پیغام ہوگا وہیں کفارو مشرکین کے لئے حسرت و افسوس کا دن ہوگا جب ان کے بنائے ہوئے گھر وندے اور خواب فضاء میں بکھر جائیں گے اور انہیں ہر طرف عذاب ہی عذاب نظر آئے گا ۔ سب سے پہلے کفار و مشرکین مجرمین سے کہا جائے گا کہ آج تم ہمارے فرماں بردار بندوں سے الگ ہو جائو تمہارے اعمال کے مطابق تم سے معاملہ کیا جائے گا اور جنت کی راحتوں اور عیش و آرام میں تمہارا کوئی حصہ نہ ہوگا ۔ اب تمہیں اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ بہت سے لوگ مومن و کافر ہوں گے مگر ان میں رشتہ داریاں بھی ہوں گی فرمایا جائے گا کہ تمہارا رشتہ ناطہ اور دوستیوں کا تعلق دنیا تک تھا اب وہ ختم ہوچکا ہے ۔ تم ایک دوسرے سے الگ ہو جائو تا کہ جنت والے جنت کی راحتوں کا لطف اٹھا سکیں۔ اس کے بعد تمام بنی آدم (علیہ السلام) کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے اپنے رسولوں کے ذریعہ تمہیں پہلے ہی اس سے آگاہ اور خبر دار نہیں کردیا تھا کہ دنیا ایک دن ختم ہوجائے گی اور پھر ہمارے پاس آ کر تمہیں زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا ۔ میں نے تمہیں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اس بات سے بھی آگاہ کردیا تھا کہ تم شیطان کے بہکائے میں آ کر اس کے راستے پر نہ چلنا اور نہ اس کی عبادت ( اطاعت) کرنا مگر تم نے ان باتوں کی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ پیغمبروں اور اصلاح کرنے والوں کی طرف سے تم نے منہ پھیرے رکھا لہٰذ آج تم ان ہی نافرمانیوں کی سزا بھگتو۔ جب میدان حشر میں نیک اور صالح لوگوں سے کفار و مشرکین کو الگ کردیا جائے گا اور وہ کفار و مشرکین اللہ کے خوفناک عذاب کو اپنی طرف آتا ہوا محسوس کریں گے تو کفر و شرک اور جھوٹ کی بھر پور زندگی گزارنے والے اپنی غلط فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ الٰہی ! ہم نے شرک نہیں کیا تھا وہ تو ہم وقتی طور پر بہک سے گئے تھے ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کے فرشتوں نے ہمارے اعمال کو کس طرح لکھا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کفار و مشرکین کی زبانوں ، کانوں ، آنکھوں پر مہریں لگا کر خود ان کے اعضاء کو بولنے کی طاقت عطاء فرما دیں گے اور وہی اعضاء جو کل تک اس کے ہر حکم کی تکمیل کرتے تھے اس کے دشمن بن جائیں گے اور ایک ایک عضو یہاں تک کہ ان کی کھال بھی بتا دے گی کہ ان لوگوں نے ان اعضاء کا کس طرح استعمال کیا تھا ۔ بد عمل کفار و مشرکین کو ان کا یہ عذر اور انکار کوئی فائدہ نہ دے گا کیونکہ جن باتوں کو یہ زبان سے جھٹلا رہے تھے ان کے اعضاء ایک ایک بات کو بیان کردیں گے ۔ اصل میں یہ تمام اعضاء جو زندگی بھر اس کے کہنے پر چلتے رہے ہیں یہ اس کے نہیں ہیں بلکہ اللہ کی ایک امانت ہیں زندگی بھر جن اعضاء پر وہ بھروسہ کرتا رہا ہے اللہ جب بھی چاہیں گے ان اعضاء کو اس کے خلاف استعمال فرما لیں گے چناچہ قیامت کے دن یہی اعضاء انسان کی ایک ایک حرکت کو بیان کردیں گے ۔ اور انسان ان باتوں کا انکار نہ کرسکے گا ۔ فرمایا کہ یہ انسان ان اعضاء پر بھروسہ اور اعتماد تو کرتا رہا مگر اس نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس کے اعضاء میں جو انقلابات آ رہے ہیں وہ خود ایک سبق ہے ، کیونکہ اس کے وہ مضبوط اعضاء جو کبھی اس کو بد مست کردیتے تھے بتدریج کمزور ہوتے جا رہے ہیں ۔ انسان بڑھاپے میں پھر اسی طرح کمزور اور دوسرے کے سہاروں کا محتاج ہوجاتا ہے جس طرح بچپن میں تھا لیکن انسان نے ان اعضاء کے مالک اللہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے ان آنکھوں ، ہاتھوں ، پاؤں اور کھالوں پر اعتماد کیا جو قیامت میں خود اس کے خلاف ہو کر اس کے گناہوں کو بیان کردیں گے
Top